شریف فیملی نے مریم نواز کو بچانے کیلیے کس کی قربانی دی،ایک بڑا انکشاف سامنے آگیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 06, 2017 | 07:56 صبح

اسلام آباد(مانیٹرنگ) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کیس میں شریف خاندان نے اپنے اثاثے تسلیم کرلیے ہیں، لہذا اب بارِ ثبوت بھی ان ہی پر عائد ہوتا ہے۔فصیلات کے مطابق نجی نیوزچینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ‘یہ کیس اب بہت واضح ہوچکا اور ثبوت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو نہیں، بلکہ نواز شریف کو پیش کرنے ہوں گے، کیونکہ انہیں ہر صورت میں احتساب دینا ہوگا.انھوں نے کہا کہ ‘لندن فلیٹس وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی ملکیت ہیں اور انہیں بچانے کے لیے حسین نواز کو آگے لایا گیا۔اعتزاز احسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ مریم نواز اب بھی والد کی زیرِ کفالت ہیں اور نواز شریف نے اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے بچوں کے ناموں کو استعمال کیا۔پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ نواز شریف کو اب ہر روز ہونے والی پیسے کی لین دین کا حساب دینا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ یہ رقم کب اور کہاں سے آئی۔اس سوال پر کہ کیا تحریک انصاف کی جانب سے پاناما لیکس کے مقدمے میں انھیں وکیل بننے کی درخواست کی گئی تھی؟ انھوں نے اس پر کسی بھی قسم کے تصبرے سے انکار کردیا۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے نئے لارجر بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران گذشتہ روز وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے بینچ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جمع کروائے تھے۔سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں وزیراعظم کی اب تک کی حکومتی تعیناتیوں سے متعلق تفصیلات پیش کی گئی۔یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں