جنرل درانی کی طرح وزیراعظم بھی اجمل قصاب کے بارے میں راز اگل چکے ہیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 09, 2017 | 13:20 شام

لاہور(مانیٹرنگ)ممبئی حملے اوراجمل قصاب کے بارے میں میجر جنرل محمودعلی درانی کے نئے اورپرانے انکشافات سے پہلے جواں سال اورخوبروامریکی رپورٹر کم Barkarبارکرنے بھی اسی طرح کے انکشافات کےے تھے جس کا بنیادی ذریعہ معلومات وزیراعظم نواز شریف تھے ۔
اجمل قصاب ،اس کی شناخت اورگاﺅں کے بارے میں ،وہ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے جناب نواز شریف نے اسے بتایاتھا کہ ممبئی حملوں میں زندہ گرفتار ہونے والے اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے ہے اوروہ ضلع اوکاڑہ کے ایک گاﺅں فرید کوٹ کا رہنے والا ہے کیونکہ معروف صوفی شاعر

اور ولی کامل بابا فریدالدین گنج شکرؒکے نام سے منسوب کم از کم تین فرید کوٹ، پنجاب کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ یہ نواز شریف تھے جنہوں نے مبینہ طورپر سب سے پہلے اوکاڑہ کے مشہور قصبے دیپالپورکے نواح میں واقع فرید کوٹ کی نشاندہی کی تھی۔وہ اپنی کتاب  میں مزے لے لے کر جناب نواز شریف سے اپنی ملاقاتوں کااحوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے ”زندہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد نے بھارتی حکام کوبتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے گاﺅں فرید کوٹ سے ہے۔ پنجاب میں فریدکوٹ نام کے کم از کم تین گاﺅں موجود تھے لیکن مجھے بھوت پریت اوران کے سایوں کا تعاقب کرنے کاکوئی شوق نہیں تھا کہ فرید کوٹ کی تلاش میں خاک چھاننی پھرتی، میں جلدازجلد براہ راست اصل فرید کوٹ پہنچنا چاہتی تھی۔ جس کے لےے مجھے لامحالہ لاہورجانا تھا جہاں میں لشکر طیبہ کے فلاحی ادارے کادورہ بھی کرنا چاہتی تھی۔ بھارتی اور امریکی حکام کے مطابق یہ ادارہ لشکر کاعوامی چہرہ تھا جس پر ممبئی حملوں کاالزام لگایاجارہا تھا ۔2001میں بھارتی پارلیمان لوک سبھا پر حملوں کے بعد لشکر پر پابندی عائد کرکے اسے غیرقانونی قرار دے کر تمام رہنماﺅں کونظربند کردیا گیا تھا ۔مجھے یقین تھا کہ اصل فرید کوٹ کا پتا مجھے صرف اور صرف نواز شریف ہی بتاسکتے ہیں اس لئے میں نے نواز شریف کے بارے میں اپنے تمام ترتحفظات بالائے طاق رکھنے کا فیصلہ کیا،دل پر بھاری پتھر رکھ کر، نواز شریف سے ملنا میری پیشہ وارانہ مجبوری تھی کیونکہ صرف وہی مجھے منزل مقصود تک پہنچا سکتے تھے مجھے یقین تھا کہ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں حالات و واقعات کابخوبی علم ہوناچاہےے لیکن چونکہ اس وقت وہ کسی سرکاری منصب پرفائز نہیں تھے اس لےے ضروری نہیں تھا کہ وہ اپنی معلومات ظاہرنہ کرنے کی پابندی کے بارے میں بھی آگاہ ہوں ۔ایک دوپہر ہم لاہور کے نواح میں واقع نواز شریف کے سرسبز وشاداب محل میں پہنچ گئے۔ انہوں نے بڑے تپاک سے استقبال کیا لیکن میرے ساتھ مترجم دیکھ کرمایوس سے ہوئے وہ مسلسل اس لڑکے کوگھورتے رہے تو اس لڑکے نے گھبراکر نگاہیں جھکالیں ۔جناب نواز شریف نے مجھے ضلع اوکاڑہ والے اصل فرید کوٹ کے بارے میں بتایاجوکہ لاہور سے چند گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ انہوں نے مجھے پنجاب پولیس کے سربراہ کانمبر بھی دیا۔ نوازشریف نے انکشاف کیاکہ پاکستانی اوربھارتی حکام نے واحدزندہ بچ جانے والے حملہ آور کے بارے میں انہیں تفصیلات سے آگاہ کیاتھا۔ میرے لےے یہ بہت بڑی خبر تھی کیونکہ نوازشریف جیسا اہم پاکستانی ان الزامات کی تصدیق کررہاتھا جس کی حکومت پاکستان کھلے عام تردید کررہی تھی کہ حملہ آوروں کاتعلق پاکستان سے تھا۔
کم بارکرلکھتی ہے کہ نوازشریف زندہ بچنے والے حملہ آور کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا”اس لڑکے کے گاﺅں والوں نے بتایاہے کہ وہ سال یاچھ ماہ میں چنددن کے لیے اپنے گاﺅں جاتا تھا۔،اس کے والدین سے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے ،وہ اپنے والدین سے سارے رشتے ناطے توڑچکا تھا اورپھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ہمارے لےے یہ خبر بہت بڑا دھماکہ تھی۔پاکستان کا سابق وزیر اعظم ممبئی دہشت گردوں کا پاکستان سے تعلق ہونے کے امریکی اور بھارتی الزام کی تصدیق کر رہا تھا ۔”گرفتار ہونے والے لڑکے اجمل قصاب کا تعلق اوکاڑہ کے گاﺅں فرید کوٹ سے ہے جو کئی سال پہلے گھر سے غائب ہو چکا تھا“نواز شریف نے بتایا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اجمل قصاب نے آخری بار 6ماہ پہلے اپنے گھر کا چکر لگایا تھا۔

کم بارکر نے اپنی کتاب میں نواز شریف کے بارے میں مزید بھی انکشافات کیے جو پاکستانی میڈیا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

دی طالبان شفل نامی کتاب کی مصنفہ اور نیویارک ٹائمز کی موجودہ میٹرو رپورٹر کم بارکر نے مقامی ریڈیو کو دئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ نوازشریف نے ان کے دورہ پاکستان کے دوران انہیں خصوصی دوستی کی پیشکش کی تھی۔

دریں اثنا انٹرنیٹ پر زیر گرد ایک ویڈیو میں کم بارکر کی تصویر کے ہمراہ ان کا نواز شریف کے ساتھ ہونے والا ایک مکالمہ بھی زیر گردش ہے۔ مکالمہ میں نوازشریف کم بارکر سے کہتے ہیں کہ میں تمہاری طرح طویل نہیں، تمہاری طرح چست بھی نہیں، موٹا اور عمر میں بھی بڑا ہوں، لیکن پھر بھی آپ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔

جوابا کم بارکر کہتی ہیں کہ اگر نوازشریف نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا تو میں حیران ہوں کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہوں گے۔

دی طالبان شفل نامی کتاب میں کم بارکر نواز شریف کی جانب سے دیے گئے ایک ظہرانے کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے مجھے دوستی کی پیشکش کی۔

کم بارکر کے مطابق دو دوستیوں کی آفر کرنے کے بعد نواز شریف نے میرے پوچھنے پر پہلا نام زرداری کا لیا، میرے انکار پر انہوں نے کہا کہ مسٹر زرداری میں کیا برائی ہے وہ ایک ہینڈسم فرد ہیں۔میں نے پھر انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے صدر ہیں اور میں ایک صحافی ایسا نہیں ہو سکتا، جس پر نواز شریف نے کہا لیکن وہ اس وقت سنگل ہیں۔

میرا جواب تھا کہ بیشک درست ہے لیکن یہ کوئی بہت مناسب وجہ نہیں ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ وہ میرے لئے ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ کم بارکر نے لکھا کہ میں اس بات پر یقینی تھی کہ وہ مذاق کر رہے ہیں۔

کم بارکر کے مطابق میں نے کہا مسٹر زی نہیں ہو سکتے دوسرا کون ہے؟ جس پر نواز شریف نے کہا کہ وہ اس کے متعلق انہیں بعد میں بتائیں گے۔

اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے لئے طویل عرصہ بغیر پاسپورٹ کے افغانستان، پاکستان اور بھارت میں رہنے والی امریکی خاتون صحافی کتاب میں مزید لکھتی ہیں کہ ان کا یہ جملہ کوئی وعدہ نہیں لگتا تھا۔ ہم نے ملاقات ختم کی اور ظہرانے کیلئے چل پڑے۔

کم بارکر کے مطابق پرتکلف ظہرانے کے بعد میں واپسی کی اجازت چاہی تو نواز شریف نے کہا میرے ساتھ آئیں، میں آپ کو رائے ونڈ دکھانا چاہتا ہوں۔

امریکی صحافی لکھتی ہیں میں نے جواب دیا کہ نہیں مجھے کل افغانستان جانا ہے جس پر نواز شریف نے میرا یہ سفید جھوٹ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے ملک گھماتے، لاہور کے ریستوران پر کھانے کے لئے لے جاتے لیکن اپنی پوزیشن کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

اس گفتگو کے بعد کم بارکر کے مطابق انہوں نے جانے کی اجازت چاہی تاہم نواز شریف نے کہا کہ وہ اب بھی میرے لئے فون خریدنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ میں کیا لینا چاہوں گی؟ بلیک بیری، نوکیا یا آئی فون؟

خاتون صحافی کے مطابق اب نواز شریف بلیک بیری کی حقیقت جان چکے تھے لیکن میں نے جھکنے سے انکار کر دیا اور انہیں کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے، آپ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں۔ نواز شریف نے میرے منع کرنے کے باوجود پھر پوچھا کہ بلیک بیری، نوکیا یا آئی فون، کم؟

میں نے جواب دیا کہ آئی فون، کیونکہ میرے پاس نوکیا اور بلیک بیری موجود ہیں، لیکن میں پھر بھی آپ سے فون نہیں لے سکتی۔

دریں اثنا پاکستانی خبررساں ادارے آن لائن سے جاری کردہ ظاہر کی گئی خبر کے تراشہ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے امریکی خاتون صحافی کو دوستی کی پیشکش جسے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔

نواز شریف کے متعلق امریکی خاتون صحافی کے انکشافات پر مبنی کتاب اور اس کے اندراجات کو مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوٹر پر ٹرینڈ کی صورت بھی دی گئی ہے۔

حکومت مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نواز شریف کے خلاف سامنے آنے والے مواد کو شئیر کر رہے ہیں۔

ایک الگ ریڈیو انٹرویو میں کم بارکر نے نواز شریف سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک موقع پر جب ہم دونوں کمرے میں اکیلے تھے تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہارا کوئی دوست ہے؟ جس پر میں نے کہا کہ میرے بہت سارے دوست ہیں، میرا جواب سن کر انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی خاص دوست، میں سمجھ گئی کہ وہ میرے بوائے فرینڈ کا پوچھ رہے ہیں۔ میرے صورتحال بتانے پر انہوں نے کہا کہ وہ میرے لئے کوئی دوست تلاش کر سکتے ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ 2007 یا 2008 میں ہوئی ایک اور گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کم بارکر کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے ایسا آئی فون لے کر دینے کی دعوت دی جو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی دسترس سے دور ہو۔ اس موقع پر انہوں نے مجھ سے دوستی کی پیشکش بھی کی۔