سردیوں میں بھی گرمی اثرات ساری دنیا پر مرتب ہونگے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 20, 2016 | 18:00 شام

الاسکا (شفق ڈیسک) ماہرین نے دریافت کیا کہ اس سال قطب شمالی کا درجہ حرارت وہاں پر سردیوں کے اوسط درجہ حرارت سے بھی 36 ڈگری فارن ہائیٹ (20 ڈگری سینٹی گریڈ) زیادہ ہے جس پر انہیں شدید تشویش ہے۔ اس وقت قطب شمالی (آرکٹک) پر آدھی رات کا وقت ہے، سردیوں کا موسم ہے کیونکہ سورج افق سے نیچے ہے۔ ہر سال یہ کیفیت مارچ تک جاری رہتی ہے اور پھر اگلے 6 ماہ کیلئے افق پر سورج نکل آتا ہے لیکن اس سال آرکٹک پر قائم امریکا، کینیڈا اور روس کے موسمیاتی سٹیشنوں میں جو درجہ حرارت ریکارڈ کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک

ہے کیونکہ اس سال موسمِ سرما میں قطب شمالی کا درجہ حرارت اس کے اوسط سے 36 درجہ فارن ہائیٹ (20 ڈگری سینٹی گریڈ) تک زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ اب بھی نقطہ انجماد سے بہت کم ہے لیکن پھر بھی درجہ حرارت میں اوسط سے اتنے زیادہ اضافے کے نتیجے میں وہاں نئی برف بننے کا عمل خاصا سست ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 2012ء میں نئی برف بننے کی کم ترین شرح سے بھی کم ہے۔ یہ عالمی ماحول کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ قطب شمالی پر سردیوں کے دوران نئی برف کی وافر مقدار جمتی ہے جبکہ وہاں گرمیوں کے موسم میں بڑے پیمانے پر برف پگھلتی ہے جس سے بننے والا پانی ساری دنیا کے سمندروں میں پہنچتا ہے اور نہ صرف سمندر بلکہ زمین کے ماحول کو بھی متوازن رکھنے میں بڑی مدد کرتا ہے۔ کم برف بننے کا نتیجہ آئندہ برس قطب شمالی پر برف میں مزید کمی کی صورت میں ظاہر ہوگا، جس پر وہاں تحقیق کرنیوالے ماہرین نے بھی شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے چند برسوں سے دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر نیا سال، پچھلے سال کے مقابلے میں گرم تر ثابت ہو رہا ہے۔ قطب شمالی کے حالات بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ لگاتار دوسرا سال ہے جب وہاں سردیوں کا درجہ حرارت سابقہ اوسط سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تفصیلات مطابق قطبی روس کے بعض سٹیشنوں پر اس سال سردیوں کا درجہ حرارت اوسط سے 12.6 درجہ فارن ہائیٹ (7 درجہ سینٹی گریڈ) زیادہ ریکارڈ کیا جاچکا ہے جب کہ روس، الاسکا اور شمال مغربی کینیڈا کے وہ مقامات جو قطب شمالی سے بالکل ملے ہوئے ہیں، وہاں بھی سردیوں کا درجہ حرارت سابقہ اوسط سے 5.4 درجہ فارن ہائیٹ (3 درجہ سینٹی گریڈ) زیادہ ہے۔ چند سٹیشنوں پر صورتِحال انتہائی خطرناک ہے کیونکہ وہاں ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت سردیوں کے اوسط سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف 2016ء ہی ایک اور گرم ترین سال نہیں ہوگا بلکہ 2017ء اپنی گرمی میں موجودہ سال کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے اس لئے ہمیں کسی بھی ماحولیاتی انہونی کیلئے تیار رہنا چاہیئے کیونکہ سیارہ زمین ایک بھرپور نظام کی طرح کام کرتا ہے جسکا ہر ایک حصہ کسی نہ کسی صورت دوسرے حصوں سے مربوط ہے اور ایک حصے میں ہونیوالی تبدیلی دوسرے تمام حصوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ یعنی قطب شمالی پر درجہ حرارت میں اضافہ وہاں موجود ریچھوں، مچھلیوں اور دوسرے جانوروں کی آبادیوں کو متاثر کریگا ہی لیکن اس کے اثرات ساری دنیا پر بھی مرتب ہونگے۔ لیکن یہ کیسے اور کس حد تک ہوگا؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔