ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو بھی نہ چھوڑا۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 05, 2016 | 17:27 شام

ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ صدر بن کر چینی مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کریں گےامریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے متعدد پیغامات میں چین کی مالیاتی پالیسی اور بحیرۂ جنوبی چین میں چین کی جاری کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔امریکی نو منتخب صدر نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا: ’کیا چین نے اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے اور بڑا ملٹری کمپلیس تعمیر کرنے سے پہلے ہم سے پوچھا تھا؟‘ڈونلڈ ٹرمپ نے خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ’میں یہ نہیں سمجھتا

( کہ چین نے ایسا کیا تھا)۔‘چین نے نو منتخب صدر کے بیانات پر امریکہ سے شکایت کی ہے۔ چین نے کہا کہ دونوں ملکوں کو بنیادی اصولوں پر توجہ دینی چاہیے۔چین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ لمبے عرصے سے دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی مفاد پر قائم ہیں۔کچھ روز پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کی صدر سے فون پر بات چیت کر کے ایک سفارتی تنازعہ کھڑا کر دیا تھا۔ نومنتخب صدر نے چار دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے تائیوان کی صدر سے براہِ راست فون پر بات کی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ اور تائیوان کی صدر تسائی کے درمیان ہونے والی گفتگو دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان 1979 کے بعد ہونے والی پہلی براہِ راست بات چیت ہے۔صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان کے دور حکومت میں امریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی کیا ہو گی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار اعلان کیا کہ وہ صدر منتخب ہو کر چینی مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کریں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے تائیوان کی صدر سے ٹیلیفون پر بات چیت کے بعد امریکی وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کی تائیوان کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چار دہائیوں تک امریکی رہنماؤں نے بیجنگ کی جانب سے تائیوان کے لیے مقرر سفارتی حدود کا احترام کیا اور 'ایک چین' کی حیثیت کو تسلیم کیا۔بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر پیغامات اور تائیوان کی صدر سے ٹیلیفون پر گفتگو نے چین کو ایک ایسا پیغام دیا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کی چین کے بارے میں پالیسی موجودہ پالیسی کا تسلسل نہیں ہو گی۔نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچ کر بھی ٹوئٹر کا استعمال کرتے رہے گے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف بیرونی ممالک بلکہ ملک کے اندر غیر یقینی کی فضا پیدا ہو گی۔