قلت اخلاص کے ساتھ ہو تو کثرت پر بھی بھاری ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ایسی تحریر جو رولا دے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 10, 2017 | 16:43 شام

‎امیر کون؟؟؟
‎کل تک فوری آپریشن کی ضرورت ہے، تیس ہزار کا انتظام کرلیں، آپریشن میں دیری بہت خطرناک ہے۔ ڈاکٹرنجم نے انیس سالہ عامرکو سِلپ پکڑاتے ہوئے کہا۔
‎ڈاکٹرصاحب! کوئی رعایت؟؟؟ بہت غریب ہیں ہم۔ عامر نے التجائیہ انداز میں کہا۔
‎نہیں، ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ڈاکٹر نجم نے بے نیازی سے کہا اور اپنی نئے ماڈل کی کار میں دوسرے ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔
‎عامر کی والدہ شدید بیمارتھیں اور ڈاکٹر نے ان کا فوری آپریشن تجویز کیا تھا، ایک ماں ہی تھی جس کی شفقت و

ہ بچپن سے دیکھ رہا تھا، باپ اسے اور اُس کی ماں کو چھوڑ کر دوسری دنیا جا چکا تھا، سب رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں، ماں نے سلائی کرکے گھر کا خرچہ سنبھالا۔
‎اب وہ شدید بیمارتھی، گھر میں کوئی جمع پونجی نہ تھی اور تیس ہزار جمع کرنا گویا پہاڑ سر کرنا معلوم ہورہا تھا۔۔۔
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‎عابد! یہ تیس ہزار روپے مسجد میں امام صاحب کو دے آو اور انھیں کہنا کہ یہ مسجد کی تعمیر کے لیے ہیں۔ اورہاں! یاد سے کہنا کہ اس نماز جمعہ میں میرا نام لے کر نمازیوں کو بتایا جائے اور ساتھ رقم کا ضرور بتایا جائے۔ سیٹھ فیاض اپنے ملازم کو تلقین کررہے تھے۔۔۔
‎اتنے میں عامر اُن کی دکان میں داخل ہوا، اُسے دیکھتے ہی سیٹھ فیاض کا منہ بن گیا۔۔۔
‎چچا! مجھے تیس ہزار روپے کی ضرورت ہے، اماں نجم ہسپتال میں داخل ہے اور اس کے آپریشن کے لیے تیس ہزار روپے چاہیے۔عامر روتے ہوئے فریاد کررہا تھا۔
‎سیٹھ فیاض اس کے باپ کے چچا زاد بھائی تھے اور اچھے خاصے وسیع کاروبار کے مالک تھے۔
‎میرا کاروبار مندے میں ہے اورمیں آجکل مقروض ہوں، سیٹھ فیاض نے بے نیازی سے جواب دیا۔
‎چچا! بڑی امید سے آیا ہوں۔عامر نے منت سماجت سے کہا لیکن سیٹھ فیاض ٹس سے مس نہ ہوئے۔
‎چلو شاباش! میں نے کہیں جانا ہے اور عابد کو کام سے بھیجنا ہے۔ سیٹھ فیاض نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے بہانہ تراشا۔
‎عامر مایوسی کے عالم میں دکان سے نکل گیا۔
‎سیٹھ صاحب! ایک بات کہوں، یہ پیسے عامرصاحب کو دے دیں، ان کی ماں کی زندگی کا معاملہ ہے۔ عابد نے ڈرتے ڈرتے عرض کی۔
‎اپنے کام سے کام رکھا کرو۔ اس کو دے دیے گویا گم کردیے، کسی کو کیا پتہ چلنا ہے کہ میں نے پیسے دیے ہیں، مسجد کے امام صاحب جیسا اعلان کہاں ہوگا، نمازی کیسے مجھے مُڑ مُڑ کر دیکھیں گے۔ سیٹھ صاحب نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔
‎سیٹھ صاحب! یہ پیسے میں مسجد میں دے آتا ہوں، آپ اس کے علاوہ رقم عامر میاں کو دے دیں، آج ہی منافع کے بیس لاکھ وصول ہوئے ہیں۔ عابد نے ایک اور جسارت کی۔
‎اچھا! میں ایسے پیسے بانٹتا رہوں تو پھر کیا گنڈیریاں بیچوں۔ سیٹھ صاحب نے نخوت سے کہا اور اسے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔
‎عابد بے چارگی سے باہر نکل گیا۔۔۔
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‎شام کا وقت تھا، عابد اپنے دوست خضر کے گھر آیا ہوا تھا۔۔۔
‎خضر بھائی! میرے دس یزار واپس مل سکتے ہیں اگر آسانی ہو، ایک لڑکے کو دینے ہیں، اُس کی ماں کا آپریشن ہے۔ عابد نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے کہا۔
‎ہاں عابی ضرور! دکان بہت اچھی چل رہی ہے، اب تو وسیع کرلی ہے، تمھیں دینے آنا تھا، بس وقت نہیں مل سکا۔خضر بھائی نے احسان مندی سے کہا۔
‎یہ لو رقم، اس میں دس ہزار میری طرف سے ہیں، اُس لڑکے کو دے دینا۔ خضر نے اپنی استطاعت سے بڑی فراخدلانہ پیشکش کی۔
‎عابد کے لیے یہ انہونی خوشی کا باعث تھی۔
‎عشاء کی نماز کے بعد اسے قمر صاحب مسجد سے نکلتے دکھائی دیے، بہت ہی بھلے مانس آدمی، انہوں نے فوری طور پر پانچ ہزار کی حامی بڑھ لی۔
‎اب پچیس ہزار روپے ہوچکے تھے۔۔۔
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‎عابد فکر میں تھا کہ عامر کیسے بقایا پانچ ہزار روپے جمع کرے گا۔۔۔
‎اسی فکر میں صبح ہوگئی ، وہ صبح صبح ہسپتال روانہ ہوگیا۔۔۔
‎اس نے ایڈمن سے رقم جمع کروانے کی بابت دریافت کیا، رقم نکالی اور جمع کروادی۔۔۔
‎عابد کلرک سے رازداری کا وعدہ کرکےخاموشی سے باہر نکل گیا۔۔۔
‎اتنے میں عامر پریشان حال ہسپتال میں داخل ہوا، کلرک نے اسے آواز دے کر بلایا اور پچیس ہزار رقم جمع ہونے کی نوید سُنائی۔۔۔
‎عامرہکا بکا رہ گیا، وہ اپنے محسن کا نام جاننے کا متمنی تھا لیکن عابد نے کلرک کو منع کردیا تھا۔۔۔
‎اب عامر پانچ ہزار روپے جمع کرنے کی فکر میں تھا۔۔۔
‎کسی رشتہ دار سے توقع نہ تھی، ہر جان پہچان والے سے وہ کہہ چکا تھا۔۔۔
‎اتنے میں اُسے اپنے محلے کے جگُو بابا اپنے بیٹے کے ساتھ آتے دکھائی دیے، عمر اسی سال کے لگ بھگ تھی، بہت مشکل سے چل رہے تھے۔۔۔
‎بیٹا! ہم محلے والوں نے تیرے لیے یہ پانچ ہزار روپے جمع کیے ہیں۔۔۔
‎عامر جگو بابا کو کلرک کے سامنے لے گیا، جگو بابا نے مختلف نوٹ اس کے سامنے رکھ دیے۔۔۔
‎لو گن لو بابو۔ جگو بابا نے کلرک سے کہا۔
‎کلرک کے سامنے دس دس، پچاس، سو کے کئی نوٹ بکھرے پڑے تھے، ایک بھی ان سے بڑا نوٹ نہ تھا۔۔۔
‎کسی میں غبارے والے کے پسینے کی مہک تھی۔۔۔
‎کسی میں تیل بیچنے والے کا تیل رچا بسا تھا۔۔۔
‎کوئی سائیکل مکینک کے ہاتھوں کی کالک سے سیاہ ہوچکا تھا۔۔۔
‎کوئی جگو بابا کی دس دس روپے کی بچت کی گواہی دے رہا تھا۔۔۔
‎اور کوئی کسی بچے گلک سے نکلا ہوا تھا۔۔۔
‎ان میں کوئی بھی پرفیوم کی مہک یا سگے خون کی خوشبو لیے نہ تھا۔۔۔
‎عامر زاروقطار رو رہا تھا، جگو بابا اسے تسلی دے رہے تھے اور کلرک منہ دوسری طرف کیے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔۔۔
‎آج ثابت ہوچکا تھا کہ قلت اخلاص کے ساتھ ہو تو کثرت پر بھی بھاری ہوجاتی ہے۔۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔