ڈاکوؤں کے بد ترین ظلم کا نشانہ بن جانیوالی یہ لڑکی اب کہاں اور کس حال میں ہوتی ہے؟ جان کر آپ کو یقین نہیں آئے گا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 03, 2017 | 06:34 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک)   بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی   نے  ضلع مظفر آباد  کی رہائشی ایک نوجوان لڑکی   کے بارے میں ایک رپورٹ  پبلش کی ہے جو  کچھ عرصہ قبل ڈاکوؤں  کے ظلم کا شکار ہوئی اور اسکا پورا جسم  ماسوائے اسکے سر کے مفلوج ہو کر رہ گیا ۔چہرے پر مستقل مسکراہٹ سجائے، نرم لہجے میں گفتگو کرنے والی ڈاکٹر انعم نجم مظفرآباد کے ہسپتال میں شعبۂ نفسیات میں مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

>ان سے بات کر کے قطعی احساس نہیں ہوتا کہ اس نوجوان ڈاکٹر کا اپنی گردن سے نیچے کے جسم پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ڈاکٹر انعم میڈیکل کے تیسرے سال میں تھیں جب مارچ 2008 میں دوران سفر ڈاکوؤں کی گولی نے انھیں زندگی بھر کے لیے جسمانی طور پر معذور کر دیا۔

اپنی معذوری کی داستان سناتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی انعم کے چہرے پر کوئی افسوس دکھائی نہیں دیا۔ شروع شروع میں انعم کو میڈیکل کی طالبہ ہونے کے ناطے پوری امید تھی کے چند دنوں میں وہ چلنے پھرنے لگیں گی کیونکہ ان کی ہمہ وقت متحرک اور زندگی سے بھرپور شخصیت بستر پر لیٹنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، لیکن یہ انتظار مہینوں اور پھر برسوں پر پھیل گیا۔انھیں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے حتی کہ کروٹ بدلنے جیسے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے گھر والوں کی مدد ضرورت پڑتی تھی۔

معذوری ان کے لیے پہلا بڑا جھٹکا تب لائی جب عزیز و اقارب کے بعد ان کے تعلیمی ادارے نے بھی ان کی تعلیم جاری رکھنے کے سلسلے میں مایوسی کا اظہار کر دیا۔انعم کے بقول یہی وہ لمحہ تھا جب انھیں احساس ہوا کہ اگر تعلیم حاصل نہ کی تو آنے والی زندگی ان کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکلات لائے گی۔ انھوں نے والدین سے ضد کی کہ انھیں ہسپتال کے بستر پر ہی کتابیں لا کر دی جائیں کیونکہ وہ تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔انعم کہتی ہیں کہ 'اس سارے عرصے میں اگر میں پہلی بار روئی تو اُس دن جب میں پہلی بار ویل چیئر پر بیٹھی تھی لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ میری زندگی میں حرکت لوٹ آئی تھی۔ اب میں ایک جگہ ساکن نہیں رہوں گی۔کالج انتظامیہ نے انھیں ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اگر انعم آنے والے امتحان میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انھیں میڈیکل کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ہو گی۔

انعم اس امتحان میں کامیاب رہیں۔انعم کا کہنا تھا :'پروفیشنل ڈگری حاصل کرنا اب میرے لیے زیادہ ضروری تھا، کیونکہ معاشی خود مختاری سے میں اپنی جسمانی محتاجی کو دور کر سکتی تھی۔انعم کہتی ہیں: 'میں نے خود کو ’میں ہی کیوں؟‘ والی مایوسی سے نکالا کیونکہ میں جو ہوا اسے بدل نہیں سکتی تھی اب مجھے تبدیلی اپنے اندر لانا تھی۔'

'اِن ایبیلیٹی اور ڈس ایبیلٹی میں فرق ہوتا ہے۔ اِن ایبیلیٹی میں آپ کرنا ہی نہیں چاہتے جبکہ ڈس ایبیلٹی یعنی معذوری میں آپ تھوڑی زیادہ محنت کے بعد وہی کام کر سکتے ہیں۔

میرے لیے اہم یہ تھا کہ میں اپنے مقصد تک جا رہی ہوں یا نہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں اپنے پیروں پر چل کر جاتی ہوں یا وہیلز پر۔معذوری کے باعث پیدا ہونے والے دیگر طبی مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے انعم نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر لی۔ یہاں ان کے لیے ایک نیا فیصلہ منتظر تھا۔ معذوری کی وجہ سے چونکہ وہ ہاتھ ہلانے کے قابل نہیں تھیں اس لیے سپیشلائزیشن کے لیے ان کے پاس انتہائی محدود راستے تھے۔ انھوں نے شعبۂ نفسیات کا انتخاب کیا۔انعم اب ذہنی مریضوں کا کامیابی سے علاج کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہے: 'اکثر مریض تو مجھے دیکھ کر ہی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر آپ ہمت کر سکتی ہیں تو ہمارے مسائل تو آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ڈاکٹر انعم نجم ہسپتال کے علاوہ بھی لوگوں خصوصاً لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پیش پیش رہتی ہیں۔ وہ اکثر تقاریب میں شرکت کر کے اپنے ذاتی تجربات بانٹ کر دوسروں کو ہار نہ ماننے کی تلقین کرتی ہیں۔انعم کے ہاتھ اب قدرے حرکت کرنے لگے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی الیکٹریکل ویل چیئر کو خود آپریٹ کرنے لگی ہیں۔انعم کی زندگی کو مثبت راہ پر جاری رکھنے میں تعاون کرنے والوں میں ان کے خاندان کے ساتھ ساتھ ان کی سہیلیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ انعم کے بقول انھوں نے بھی اپنی زندگیوں کو میرے لیے محدود کر لیا۔ جہاں ممکن ہوتا وہ انعم کو ساتھ لے جاتیں وہ ان کے پاس ہی رہتیں۔دھیرے دھیرے انعم نے شادی بیاہ جیسی تقریبات میں بھی جانا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں: 'پہلی بار ملنے والے ہمیشہ ہمدردی کرتے ہیں لیکن مجھے لوگوں کو بتانا ہے کہ یہ معذوری ہی میری زندگی نہیں بلکہ محض میری زندگی کا حصہ ہے۔(بشکریہ :بی بی سی اردو)'