ودیا بالن اور انوپم کھیر جب مل کر بیٹھے توپرانی یادیں تازہ کیں۔ان کی بچپن کی ایسی باتیں جنہیں جان کر آپ کو بھی ہنسی آ جائےگی۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 31, 2017 | 18:13 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک):خواتین کے کردار پر مرکوز 'کہانی' اور 'ڈرٹی پکچرز' جیسی فلموں سے ایک الگ شناخت حاصل کرنے والی بالی وڈ کی اداکارہ ودیا بالن کہتی ہیں کہ ایک اداکار کے اندر اداکاری کی کچھ کوالٹیز قدرتی ہوتی ہیں اور اس کی اداکاری کسی نہ کسی شکل میں باہر آ ہی جاتی ہے۔فلم ’کہانی‘ میں ودیا بالن نے ایک حاملہ خاتون کا کردار کیا تھا۔اس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’میں سینٹ زیویئرز کی طالبہ تھی اور چیمبور سے وی ٹی تک ہم لوکل ٹرین میں سفر کیا کرتے تھے۔ ہمارے گروپ

کی لڑکیاں بہت نوٹنکی باز تھیں اور میں بھی انھیں میں سے ایک تھی۔‘


انھوں نے بتایا: ’ہم ٹرین میں الگ الگ طرح سے مستی کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم بہت تھکے ہوتے تھے۔ جب بہت چھوٹے تھے تو دوسرے لوگوں کو سیٹ دینی پڑتی تھی۔ کئی بار تو سیٹ حاصل کرنے کے لیے میں حاملہ ہونے کی ایکٹنگ کرتی تھی اور اس بہانے سے اکثر مجھے سیٹ مل جایا کرتی تھی۔‘حال ہی میں ودیا بالن اداکار انوپم کھیر کے ’ایکٹنگ اسکول‘ گئی تھیں اور وہاں پر بات چيت کے دوران انھوں نے اپنے ایسے قصے شیئر کیے۔ودیا بالن کے قصے سننے کے بعد اداکار انوپم کھیر نے بھی ممبئی شہر میں اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’سٹرگل کے دوران میرے پاس اتنا کام تو ہوتا نہیں تھا اور اچھا کھانا کھانے کو نہیں ملتا تھا۔ دوستوں نے بھی بلانا بند کر دیا تھا۔‘

انھوں نے کہا: ’ان دنوں میرا رنگ بہت صاف تھا اور میری داڑھی براؤن تھی تو میرے دوست ستیش کوشک اور سهاس كھانڈكے باندرا، کھار اور سانتا کروز کے علاقوں میں ہونے والی شادیوں کا پتہ کیا کرتے تھے کہ شادی کہاں اور کب ہو رہی ہے۔ ان دنوں مجھے ایک ڈرامے کے لیے سفید سوٹ پہننے کو ملا تھا اور اس ڈرامے کے بہت سے شوز کرنے کے بعد وہ سوٹ انھوں نے مجھے دے دیا تھا۔‘انوپم کھیر کہتے ہیں کہ ’میں اس سوٹ کو نکالتا اور اس کے پہننے کے بعد اپنا نام تبدیل کر لیتا۔ جیسے سٹیون بریخت اور سٹیون بریخت بن کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ آٹو میں بیٹھتا اور ہم شادی میں پہنچ جاتے۔‘’سهاس اور ستیش شادی والوں کو کہتے کہ یہ جرمنی سے آئے ہیں اور انھوں نے آج تک کوئی ہندوستانی شادی دیکھی نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ غیر ملکیوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ چلو ان کے ساتھ ایک اچھی سی تصویر ہی کھنچ جائے گی۔‘’اور میں شادی کے کھانے کی تعریف غیر ملکی لہجے میں کیا کرتا تھا۔ جب شادی کے منڈپ پر دولہا دلہن بیٹھ جاتے تو میں دولہا کے کان میں ہندی میں کہتا کہ ابھی بھی وقت ہے، بھاگ جا۔‘اس طرح کے بہت سے قصے ہیں جنہیں یاد کر کے آج بھی ہنسی آ جاتی ہے۔لیکن انہیں کبھی بھولایا نہیں جا سکتا ۔