بڑی خبر آگئی:راحیل شریف سعودی عرب سے واپس آکر پوری فوج تیار کریں گے تاکہ۔۔۔۔۔ ایسا انکشاف منظرعام پرکہ تہلکہ برپا ہوگیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 04, 2017 | 09:11 صبح


لاہور (مانیٹرنگ رپورٹ) دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کو منظم کرنے کیلئے پاکستان کے سابق آرمی چیف اور جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سے تمام معاملات حتمی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں اور وہ اپنے دورہ سعودی عرب سے 9جنوری کو وطن واپس آ رہے ہیں اور فوری طور پر اپنے ساتھ لے جانے کیلئے دو سے تین تک سابق آرمی لیفٹیننٹ جنرل، متعدد بریگیڈیئر (ر) اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو نئی کمان کیلئے بھرتی کریں گے اور ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اگلے 3 ماہ کے اندر پاکستان سے کم وبیش ایک بریگیڈ کے لگ بھ

گ سابق آرمی افسر جمع کر کے جنوری فروری میں انہیں بھیجنے کا کام نہ صرف شروع کر دینگے بلکہ مارچ کے آخر تک یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ 9 جنوری کو پاکستان واپس آتے ہی وہ اپنے کام کا آغاز کر دیں گے اور انہیں دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کا سربراہ مقرر کردیاگیا جس کا قیام 15 دسمبر 2015ءکو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف نے کیا تھا اس کمان کا جوائنٹ کمانڈ سنٹر جے سی سی (JCC) سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہو گا۔ کمانڈ میں شامل مسلم ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے وہ مسلم ممالک ہونگے جس کے پاس باقاعدہ فوجی سٹرکچر موجود ہے جیسے سعودی عرب، بحرین، بنگلہ دیش، مصر، اردن، نائیجریا، عمان، ترکی، متحدہ عرب امارات اور پاکستان۔ دوسری صف میں وہ ممالک شامل ہوں گے جن کی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج اور کمان ابھی مکمل نہیں۔ ان کے نام تنیش، چاﺅ، کومرو، کو ڈی آئی ڈی، ڈی جی مشری، اریٹیریا، گبون، کینیا، کویت، لبنان، مالدیپ، مالی، موریطانیہ، مراکش،نائیجیریا، سینیگال، سری لیون، صومالیہ، سوڈان، ٹوگو، تیونس، یمن، تیسری صف میں وہ ممالک ہیں جن کی رکنیت زیر غوراور زیر تکمیل ہے، ان کے نام یہ ہیں افغانستان آذر بائیجان، انڈونیشیا، تاجکستان وغیرہ۔ ان ممالک کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ اگلے چند ہفتے میں ہو جائے گا۔دہشتگردی کے خلاف مسلم ممالک کے جوائنٹ کمانڈ سنٹر کو پاکستان کے جی ایچ کیو کے رول ماڈل پر بنایا جائے گا۔

واضح رہے پاکستان باقاعدہ فوجی دستے بھی اس سے قبل سعودی عرب جاتے رہے ہیں۔ 1980ءمیں پاکستانی دستے سعودی عرب کی افواج کے ساتھ افرادی قوت کے طور پر شامل رہے تاہم اسلحہ اور سازوسامان سعودی عرب نے فراہم کیا تھا۔ 1990ءکی دہائی میں بھی یہ دفاعی معاہدہ ختم ہو گیا اور پاکستان کی بری افواج کے دستے واپس آ گئے۔ بعد ازاں صدام حسین نے جب حملہ کیا پاکستان سے کچھ فوجی دستے پھر سعودی عرب میں پہنچے تاہم اس بار پاکستان کے ریگولر فوجی دستے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض نہیں جائیں گے بلکہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب سے 9 جنوری کو واپس پاکستان آنے کے بعد پہلے مرحلے پر ریٹائر فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں کو منتخب کریں گے اور دوسرے مرحلے پر ریٹائرڈ اعلیٰ اور چھوٹے افسروں اور ریٹائرڈ فوجیوں کا ایک بریگیڈ کھڑا کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیں گے جو دہشتگردی کے خلاف اسلامک ملٹری الائنس میں مرکزی کردار ادا کرے گا تاہم دیگر بڑے ملکوں کی افواج میں سے بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر اور سپاہی لئے جائیں گے۔

جن تین ملکوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے گی ان میں سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ ترکی، مصر اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی افواج کے بعض اہم شعبے میں پہلے ہی سے اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت کا فریضہ پاکستان انجام دیتا رہا ہے تاہم یہ خبر عام ہے کہ اس بار پاکستان سے بالخصوص دہشتگردی کے خلاف مہم مثلاً سوات اور وزیرستان میں ضرب عضب کے ریٹائرڈ ہیرو جمع کر کے دہشتگردی کے خلاف اسلامی ممالک کی جائنٹ کمانڈ میں شامل کئے جائیں گے۔