عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 16, 2017 | 18:38 شام

مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا تو با ادب ہو کر گویا ہوا ! میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ہیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ہے ؟؟؟۔۔۔

مرشــد نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئی تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ہے،،۔ وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ہوئی ہے تو میں معافی کا طلبگار ھوں ! ۔۔

ایک لمبی ' "ھـُـــــــوں" کے بعد مرشد نے

نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ہوا مگر فکرمند ضرور ہوں ،،۔۔میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ہمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پڑ گئی تھی ،،میں سوچ یہ رہا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں،، اس دوران اگر میری اجل آگئی تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ہو جائے،،۔ بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ،، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا،، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ہے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا ،، تم نے بہت دیر کر دی ہے،، خیر اللہ بہتر کرے گا،، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ہوں ،، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ہے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ہے،، یہ عرق ہی ہماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !!یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ہے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ہے،، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ہے ! ۔۔

اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا ! مرید بہت پرجوش تھا،، آبِ حیات کا معمہ بس حل ہونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا،، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ ،، الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں ،، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئی زندگی کی نوید تھا،، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رہا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رہا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ہوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کو چشمہ تو صرف مرشد کو ہی پتہ تھا !! وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا،، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا،، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ہو کر دور سے ہی چلایا ،،۔۔

میرے مرشد ،، اے میرے مرشد، دیکھ میں اپنی تپسیا میں کامیاب رہا،،میں بوتل بھر لایا ہوں ،، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹھیا سے بار نکلا ،، بارہ سالوں نے اس کی کمر دہری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !! اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چورا چورا ہو گئی،، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئی،، بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئی ،،میرے مرشد میں لٹ گیا میں برباد ہو گیا میری محنت ضائع ہو گئی ،،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئی،، میرے مرشد میں تباہ ہو گیا،، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ،، اور وہ شیشی بھر لی !! اب مرید رو رہا تھا تو مرشد ھنس رہا تھا،، میرے مرشد میری زندگی برباد ہو گئی اور آپ مسکرا رہے ہیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا۔۔۔۔

!! مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ،، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ہوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ہے " عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات " یا مقصدِ حیات !! اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ہیں آبِ حیات کے چشمے !! یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ہے ،، ان میں ہی زندگی چھپی ہوئی ہے،، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ہیں جیسے انبیاء ،، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگرتے اور ٹوٹتے اور اپنی محنتیں ضائع ہوتے دیکھتے ہیں تو تیری طرح بلبلاتے ہیں ،، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے،، یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوٹتی ،، آسمان والوں کے مٹکے ہر دم بھرے رہتے ہیں،،وہاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ہے،، پچھتاوہ نہیں ہے ! ہمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ہے،پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ہاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ہے ،، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ہے۔۔ اور ہم پچھتاتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ہمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ہے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ہیں !! ۔۔۔

یہ وہ پانی ہے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ہے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حشر کا نقشہ کھینچا ہے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رہی ہوگی،، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ہوئی لپکے گی،، فرشتے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ ،، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی،، صحابہ نے پوچھا کہ آئے اللہ کے رسولﷺ وہ کونسا پانی ہو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ہوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ہیں!! یہی وہ رونا ہے جو امیر خسرو روتے ہیں کہ
!!
بہــــت ھـــــــی کٹھــــــن ڈگـــــــر پنگھـٹ کی !
کیسے بھــــر لاؤں میـں جھـــٹ پٹ مٹــــــــکی ؟
 یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !!
تن تیـرا رب سَچے دا حـجـــــرہ ، پا اندر ول جھــاتی !!
نہ کــــــر مِنـت خـــواج خضــر، تیرے اندر آبِ حیـاتی !
اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب اشارہ کرتے ھیں
!
سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے !
جنہاں بھـریا ، بھــر سِر تے دھــریا، قدم رکھن جَـر جَـر کے !
 یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ھیں جو کنوئیں سے آبِ حیات بھرنے جاتی ہیں،،مگر ان میں سے کوئی کوئی بھر کر واپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ہیں،، لیکن جو بھر کر سر پر رکھ لیتی ہیں ان کے قدم رکھنے کا انداز بتاتا ھے کہ ان کا گھڑا بھرا ہوا ہے ! وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتی ہیں ! یہ مضمون اللہ پاک نے سورہ الفرقان میں اپنے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا ہے،، و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارضِ ھوناً ،،،، رحمان کے بعد بندے زمین پر بہت تھم تھم کرقدم رکھتے ہیں یعنی پروقار چال چلتے ہیں،، ان کی چال بتاتی ہے کہ گھڑا بھرا ہوا ہے ! میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ہیں !۔۔

لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا ! ۔

شام پئــی بِن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا !!۔۔

یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم بھی بار بار کیا ہے،، اور ایمان والوں تمہارے ازواج اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں،،ان سے خبردار رہو !( التغابن ) میاں صاحب فرماتے ہیں
!
اکھیوں انَۜا تے تِلکَن رستہ کیوں کر رہے سنبھالا ؟
دھـــکے دیــون والے بُہــتے تُـــو ھتھ پکــڑن والا !
 اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ہوں،ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلن والا ہے،، دوسری جانب ہر بندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ہے ،،جب کہ صرف تیری ذات ہاتھ پکڑنے والی ہے !!
ہم کو بھی وضو کر لینے دو،ہم نے بھی زیارت کرنیہے !
کچھ لـوگ ان بہتـی آنکھـوں کو ولیـوں کا ٹھکانہ کہتے ہیں !