لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/سلیم ناز)فنون لطیفہ کی ترویج و ترقی کے لئے قائم کئے گئے اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ اس کا جائزہ لیں تو بہت افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے؟ کیونکہ یہ ادارے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے عاری ہو چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں قائم ملتان آرٹس‘ ڈی جی آرٹس کونسل اور بہاولپور آرٹس کونسل جیسے ادارے اگرذرا بھی فعال ہوتے تو یہاں کا فنکارانہ ٹیلنٹ دب کر نہ رہ جاتا اور دستکار تنگدستی کا شکار نہ ہوتے۔
کلمہ چوک سے ایم ڈی اے کی جانب جاتے ہوئے ملتان آرٹس کونسل کچھ عرص
سٹیج ڈرامہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نذر…۲۹۹۱ء میں جب پیپلزپارٹی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا تو ملتان آرٹس کونسل کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد کلمہ چوک سٹیٹ بنک کے پہلو میں رکھا گیا۔ عمارت کی تعمیر کا آغاز ہوتے ہی شیر شاہ روڈ پر واقع ملتان آرٹس کونسل بند کر دی گئی۔ یہیں سے سٹیج ڈرامے کے زوال کا آغاز ہوا کیونکہ آرٹس کونسل کی نئی عمارت مقررہ وقت تک مکمل نہ ہو سکی تو سٹیج فنکاروں‘ پروڈیوسروں اور ہدایتکاروں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ بے روزگاری کا شکار فنکار سڑکوں پر آ گئے اور آرٹس کونسل کی نئی عمارت کی جلد از جلدتکمیل کے مطالبات شروع ہو گئے ۔ ایسے وقت میں سٹیج ڈرامہ آرٹس کونسل کی سٹیج سے سینما کی سٹیج پر منتقل ہو گیا۔ ملتان سٹیج کے ہدایتکار ایم اسلم شاد مرحوم اور زوار بلوچ نے فن کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیتے ہوئے زینتھ سینما نواں شہر(جہاں اب شاپنگ پلازہ بن رہا ہے) چھوٹے سٹیج سے بڑے سٹیج پر ڈرامہ کے انعقاد کا آغاز کیا۔ شائقین کے لئے سینما میں بیٹھنے کی گنجائش آرٹس کونسل ہال سے نسبتاً بہت زیادہ تھی۔ آرٹس کونسل کی بندش کی وجہ سے ڈرامے کے شائقین کو واپس لانے اور ہال بھرنے کے لئے مختلف حربے استعمال ہونے لگے اور سٹیج ڈرامہ اپنی ڈگر سے ہٹ کر ’’میوزک شو‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ فحش جگتیں‘ عریاں ڈانس ڈرامے کا حصہ بنتے چلے گئے۔ سینما کی سٹیج پر ڈرامے کا تجربہ کامیاب دیکھ کر بہت سے سرمایہ دار لوگ اس میں شامل ہو گئے اور دیگر سینماؤں کی سٹیج پر بھی ڈرامہ شروع ہو گیا۔ اس وقت ملتان میں ۹ نجی تھیٹرز کام کر رہے ہیں۔ جہاں سپکرٹ اور اداکاری سے پاک ناچ گانے کا کام جا ری ہے۔
ملتان میں 2000 ء میں آرٹس کونسل کی اپنی عمارت مکمل ہوئی۔ گورنر خالد مقبول نے اس کا افتتاح کیا۔ آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر محمد علی واسطی کی زیر نگرانی یہاں سٹیج ڈرامے اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہونے لگا۔ لیکن اصل سٹیج ڈرامہ کی بحالی ممکن نہ ہو سکی۔ نجی تھیٹرز چونکہ اس دور میں مادر پدر آزاد کام کر رہے تھے اس لئے شائقین کا جھکاؤ زیادہ تر ادھر ہونے لگا۔ مقابلے کی اس فضا میں ملتان آرٹس کونسل نے اپنی حیثیت اور شناخت برقرار رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ملتان آرٹس کونسل کے خوبصورت ہال میں تقریباً ۰۸۶ نشستیں اور ماحول شائقین پر اپنا سحر طاری کئے رکھتا۔ محمد علی واسطی کی ریٹائرمنٹ کے بعد تاحال اس کونسل کو فعال اور مستند ڈائریکٹر میسر نہ آیا۔ کھانے اور ’’پینے‘‘ والے اس کا مقدر بن گئے۔ ضلعی گورنمنٹ کی مداخلت سے بھی آرٹس کونسل کے منتظمین کے ’’ہاتھ‘‘ باندھ دئے گئے اور رہی سہی کسر غیر ضروری پالیسیوں نے پوری کر دی۔ سٹیج فنکار سہیل احمد نے نوائے وقت ملتان کے زیراہتمام ایک تقریب میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ایک حکومت سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہے دوسری حکومت آ کر دوپٹہ اتروا دیتی ہے۔ اب شوبز سے وابستہ افراد کہاں جائیں کیونکہ شائقین کا مزاج تبدیل کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہی حال اب ملتان آرٹس کونسل کا ہو چکا ہے۔ اتنی بڑی پرشکوہ عمارت آج اپنی بے بس پر نوحہ کناں ہے۔ سٹاف مفت کی ’’ویلیاں‘‘ کھانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کو فنکاروں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی ہے نہ ہی ادارے کی اصل ذمہ داری پوری کرنے کی طرف کوئی توجہ ہے جس کا ثبوت آرٹس کونسل کی موجودگی میں ادبی ثقافتی تقریبات کا ایوان صنعت و تجارت کے ہال میں منتقل ہونا ہے۔ ملتان آرٹس کونسل ڈرامہ فنکاروں کا اصل گھر ہے۔ یہاں ثقافتی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے فنکار خود کو بے گھر سمجھتے ہیں۔ نجی تھیٹروں پر سٹیج ڈرامے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس ماحول سے بھی ان میں بے زاری پائی جاتی ہے اور وہ اپنے اصل گھر میں لوٹنے کے خواہشمند ہیں کونسل کے غیر ذمہ دارانہ رویوں اور ’’حسن کارکردگی‘‘ کے باعث فنون لطیفہ اور ملتان کی ثقافتی روایات دم توڑ رہی ہیں۔