ان اللہ مع الصٰبرین ۔۔اس نازک سی پاکستانی لڑکی نے صبر اور حوصلے کی مثال قائم کرتے ہوئے کینسر کو شکست دے دی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 07, 2016 | 16:26 شام

لاہور(شیر سلطان ملک)امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکستانی والدین کی اکلوتی بیٹی اشبہ صوفیہ چوہان عزم و ہمت اور حوصلے کی ایسی شاندار مثال ہے جو کروڑوں میں چند لوگ ہی بن پاتے ہیں ۔ اشبہ چوہان بچپن سے خون کی ایک انتہائی مہلک بیماری بیٹا تھیلسیمیا میں مبتلا ہے اس بیماری سے متاثرہ فرد کے جسم میں بلڈ سیلز بننا بند ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بار بار انتقال خون کروانا پڑتا ہے ۔ انتقال خون کا یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اس عمل سے گزرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا جسم ریزہ ریز
ہ ہو کر ٹوٹ رہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 7۔1 فیصد اس مہلک مرض یعنی بیٹا تھیلسیمیا کا شکار ہے۔ اس مرض سے بہت کم لوگ مقابلہ کر پاتے ہیں اور بہت جلد جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ مگر آفرین ہو اس کمزور سی لڑکی پر ۔ اشبہ صوفیہ چوہان بڑی دلیری کے ساتھ کئی سالوں سے اس خطرناک بیماری کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس دوران اس نے متعدد بار ہمت بھی ہاری مگر ہار بار مایوسی ہار گئی اور اشبہ کے اندر پھر سے اپنے مرض کو شکست دینے کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ اشبہ کا کہنا ہے کہ ہائی سکول جانے کی عمر تک مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں اتنی جان لیوا بیماری کا شکار ہوں ۔ مگر ہائی سکول کی تعلیم شروع ہوتے ہی میں اکثر بیمار رہنے لگی اور سکول سے غیر حاضر رہنا میرا معمول بنتا گیا ۔ پھر مجھے لوگوں کی تنقید اور طعنے برداشت کرنا پڑے جو سمجھتے تھے کہ میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہی ہوں اور کام چور ہوں۔ انہیں ذرا بھی احساس نہ تھا کہ مجھ پر کیا قیامت گزر رہی ہے۔ والدین کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے اشبہ کو بلڈ ڈونر نہیں مل رہا تھا مگر بالاخر 2011 میں اسے ایک بلڈ ڈونر مل گیا تو ڈاکٹروں نے اسکے ٹرانسپلانٹ کی تیاریاں شروع کر دی ۔ پھر اشبہ کو کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کے انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑا ۔ مگر اسی دوران بد قسمتی سے خون دینے پر آمادہ شخص نے اپنا ارادہ بد ل لیا اور اشبہ کی زندگی پھر خطرے میں پڑ گئی ۔ اس صورتحال میں اشبہ یوسف چوہان انتہائی مایوسی اور ڈپریشن میں چلی گئی اسے لگا کہ اسکی زندگی کے چند ہی روز باقی ہیں اور اسکی موت انتہائی کربناک اور درد ناک ہوگی۔ مگر پھر ایک معجزہ ہوا اور اشبہ کے ٹوئٹر پر ایک دوست نے اس کی مایوسی اور ڈپریشن کا خاتمہ کیا اسے دوبارہ امید دلائی اور اپنی بیماری سے لڑنے کا حوصلہ پھر اشبہ میں پیدا کر دیا۔ ستمبر 2014 میں اشبہ ایک بار پھر بون میرو ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزری ۔ درد اور تکلیف کا ہمت اور برداشت سے مقابلہ ہوا 45 دن تک اشبہ اسپتال میں زیر علاج رہی ۔ اشبہ کے الفاظ میں یہ 45 دن اسکی زندگی کے سب سے زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک دن تھے ۔ کیمو تھراپی کے سائیڈ ایفیکٹس بہت خوفناک نکلے ۔ ان دنوں میری ہر وقت اللہ سے یہ دعا ہوتی کہ اللہ تعالیٰ میرے درد اور تکلیف سے مجھے نجات دلا دے اور یہ درد اور تکلیف میرے کسی بدترین دشمن کو بھی نہ سہنی پڑے۔ اشبہ کو اس بیماری کی وجہ سے کتنا درد سہنا پڑا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کی طرف سے دوا کے طور پر دی جانیوالی مارفین کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی اس درد کو کم نہ کر سکتی اور اس سے دو لفظ منہ سے نکالنا بھی ماےل ہوتا تھا۔ اب بھی اشبہ صوفیہ چوہان کا علاج ہو رہا ہے اسکے بال جو بالکل جھڑ گئے تھے دوبارہ اگنا شروع ہو گئے ہیں ۔ مگر اشبہ کو خوشی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی ہے۔ اشبہ کا خواب ہے کہ وہ صحت یاب ہونے کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرے اور سافٹ وئیر انجینئر بنے اور پھر مشہور زمانہ کمپنی مائیکروسافٹ کی ٹیم کا حصہ بنے۔