اگر کسی اور سے شادی کی تو میں اسے گولی مار دونگا: کیا معروف صوفی دانشور اشفاق احمد نے واقعی بانو قدسیہ کو یہ دھمکی دی تھی؟ جانیے خود بانو آپا کی زبانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 02, 2017 | 03:52 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک )  افواج پاکستان کے نمائندہ میگزین ہلال  کی ایک سپیشل رپورٹ کے مطابق ۔۔۔

چھیاسی سالہ بانو قدسیہ کا زیادہ تر وقت آج کل گھر میں ہی گزرتا ہے ، ان کی طبیعت قدرے ناساز رہتی ہے۔ معالج روزانہ گھر آکر ان کا معائنہ کرتا ہے اور بوقت ضرورت دوا دے دیتا ہے۔ کمزوری کے باعث بانو قدسیہ سٹیل سٹک کے سہارے چلتی ہیں۔ چند روز قبل کمرے میں چلتے ہوئے وہ توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور لڑکھڑا کر گر پڑیں۔ اس دوران سٹک چہرے پر لگنے سے انہیں چو

ٹ بھی آئی لیکن اب ان کی حالت رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے۔۔۔ جمعرات کی شام ملاقاتیوں کے لئے مخصوص ہے اور وہ باقاعدگی سے ہر جمعرات کو داستان سرائے ماڈل ٹاؤن لاہور میں آنے والے قدر دانوں سے ملاقات بھی کرتی ہیں۔

: اشفاق صاحب کے انتقال کو دس برس بیت گئے ہیں ، ان کے بغیر زندگی کا یہ عرصہ کیسا گزرا ، ان کی کمی کب کب محسوس ہوتی ہے؟ بانو قدسیہ: میں نے اپنی کتاب ’’ راہ رواں‘‘ لکھی اشفاق صاحب کے ساتھ جو میں نےوقت گزارا وہ سب اس میں درج ہے۔ اشفاق احمد جیسا شوہر ہے نہ کوئی دوست۔ یہ میں آپ کو بتادوں ویسا انسان بھی نہیں ہو سکتا۔ تو مجھے ان کا جوتجربہ ہے کاش تمام عورتوں کو اپنے شوہروں کا ویساہی ہو۔ ان کی کمی تو ہرلمحے محسوس ہوتی ہے ، کوئی شادی ہو‘ بیاہ ہو‘ خاص طور پر جب بچے گھر میں آئیں یا باہر جائیں تب‘ اشفاق صاحب کی یادیں گھیر لیتی ہیں، میرا ایک پوتا آج کل آسٹریلیا سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، اگر اشفاق صاحب زندہ ہوتے تو پوتے کو باہر جانے کی اجازت ہرگز نہ دیتے اور وہ بچہ میرے سامنے تعلیم پاتا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہے، ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اشفاق صاحب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

ہلال: یہ بتائیں کہ اشفاق احمد کی شخصیت پر روحانیت کا رنگ کیسے غالب آیا؟ بانوقدسیہ: جی ہاں میں آپ کو بتاتی ہوں یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا، اشفاق جب گھر پر موجود ہوتے تھے تو شہاب صاحب (قدرت اللہ شہاب)انہیں بیعت سے منع کرتے رہتے تھے کیونکہ وہ لااُبالی سے آدمی تھے ان دنوں شہاب صاحب بابا نور والے کے ڈیرے پر جایا کرتے تھے ، انہی کی وساطت سے اشفاق صاحب کا وہاں آنا جانا شرو ع ہوا ، آپ کو نور والے ڈیرے کا پتہ ہی ہوگا۔ شہاب صاحب نے انہیں وہاں بھی بیعت کرنے سے منع رکھا لہٰذا اشفاق صاحب نے بیعت تو نہ کی لیکن وہاں سے سیکھا بہت کچھ۔ ’’سب سے بڑی چیز جو انہوں نے سیکھی کہ ڈیرے پر کھانا مفت دیا جاتا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کو بھی ایک طرح سے لنگر بنا لیا۔‘‘ وہ اپنے گھر پر بھی لنگر چلاتے تھے، دوپہر کے وقت پینتیس چھتیس بندے ہوجایا کرتے تھے‘ کھانے والے اور میں ان کے لئے کھانا بنایا کرتی تھی، میں کھانا بناتے بناتے تھک جایا کرتی تھی۔ اس وقت میرے ساتھ ایک خاتون ہوتی تھی، بہت نیک اور درویش تھی۔ کبھی وہ روٹیاں بنا دیتی اور کبھی میں خود، یہ اشفاق صاحب کی درویشی تھی کہ بابا نور والے ڈیرے کی ایک روایت ہمارے گھر میں بھی شروع ہو گئی۔۔۔

ہلال: اشفاق صاحب اپنی تحریرو ں میں عورتوں کی کس طرح نمائندگی کرتے تھے اور کیا کبھی تخلیقی سطح پر انہوں نے آپ کو بھی رہنمائی دی ؟ بانوقدسیہ: سب سے بڑی بات ہے کہ اشفاق جیسا لکھنے والا بندہ ہی کوئی نہیں جو کچھ انہوں نے عورتوں کے لئے لکھا ویسا بھی کوئی نہیں کرسکا، وہ ہمیشہ سے عورتوں کو اونچے مقام پر رکھتے تھے‘ انہوں نے مجھے بھی جو کچھ بنایا آپ کے سامنے ہی ہے جہاں میں آج پہنچی ہوئی ہوں‘ وہاں کوئی اور عورت پہنچی ہی نہیں‘مجھے پاکستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ بھی ملا اور یہ اشفاق صاحب کی مہربانی ہے ‘مجھ میں ایسے کوئی خوبی نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا‘ آج جس مقام پر بھی میں ہوں وہ سب ان کی مرہون منت ہے۔

 ہلال: اشفاق صاحب نے شادی نہ کرنے کی صورت میں آپ کو کوئی دھمکی دی تھی ، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ بانوقدسیہ: ہاں یہ ٹھیک ہے(مسکراتے ہوئے) جب انہیں پتہ چلا کہ میری شادی کسی اور سے طے ہورہی ہے تو وہ غصے میں آگئے تھے اور مجھے کہا تھا کہ کسی اور سے۔،شادی کی تو میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا پھر کچھ عرصہ بعد میرے والدین مانے اور پھر ہماری شادی ہو گئی۔

ہلال: اشفاق صاحب اگرآج زندہ ہوتے تو پاکستان کو درپیش مسائل پر ان کا طرز عمل کیا ہوتا؟ بانوقدسیہ: اشفاق صاحب سچے پاکستانی تھے اشفاق صاحب وہ سب کچھ کرتے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ ہلال: اشفاق صاحب کے ساتھ آپ کی تمام عمر گزری ، ان کی کوئی ایسی خوشگوار یاد جو آج تک آپ کے شعور سے محو نہیں ہوسکی؟ بانوقدسیہ: بات یہ ہے کہ جب میں اشفاق صاحب کو ملی (گورنمنٹ کالج میں پہلی دفعہ) تو میں اسی وقت ان کی مداح ہوگئی تھی کیونکہ میں جمال پرست ہوں اور اشفاق صاحب بہت خوبصورت آدمی تھے۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا کہ انسان ضرور متاثر ہوجاتا تھا ، تیسری بات یہ کہ وہ عورتوں کی بڑی عزت کرتے تھے ، اس ضمن میں انہوں نے میری زندگی بنائی اور مجھے اس مقام تک پہنچایااشفاق صاحب زندہ باد۔ (بشکریہ :ہلال)