رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی : 4 سال سے بھارت میں قید ایرانی لڑکی کا تذکرہ ، اس کا جرم کیا ہے ؟ آپ بھی جانیے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 21, 2017 | 08:34 صبح

تہران (ویب ڈیسک) ایرانی نژاد برطانوی امدادی کارکن نرگس کلباسی اشتری کو ایک بچے کی موت کے سلسلے میں جاری مقدمے کی وجہ سے انڈیا سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔انھیں 2014 سے انڈیا سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ بی بی سی مانیٹرنگ کی نوشا سلوچ کہتی ہیں کہ ان کے معاملے نے امدادی کارکنوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔

ght:0in">28سالہ اشتری کو ایک بچے کی موت کے لیے ایک سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ بچے کی موت اس پکنک کے دوران ہوئی تھی جس کا انھوں نے اہتمام کیا تھا۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل کی ہے اور ابھی وہ ضمانت پر رہا ہیں۔اس ماہ کے اخیر میں ان کے مقدمے کی سماعت ہے اور وہ بچے کی موت میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ قبائلی سیاست اور بدعنوانی کے چکر میں پھنس گئی ہیں۔انھوں نے چینج ڈاٹ اورگ پر لکھا: ’میں بدسلوکی کی انتہائی دہشت ناک شکلوں سے گزری ہوں جو انتہائی طاقتور، بااثر اور تحفظ یافتہ افراد کے گروہ نے مجھ پر ڈھائی ہے۔

ان کی اس عرضی پر سینکڑوں افراد نے دستخط کیے ہیں۔ رضاکا خاتون نے کہا کہ انڈیا میں کام کرنا ان کا خواب تھا لیکن انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس ملک میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔یہ معاملہ پانچ سالہ عاصم جلکرا کی موت کا ہے جو ایک دریا کے کنارے اشتری کی پکنک کے بعد سے لا پتہ ہو گیا۔ اشتری نے کہا کہ اس کے والدین نے بچے کی موت کے بارے میں پولیس کو ایک بیان دیا تھا لیکن ایک ماہ بعد انھوں نے ان کے خلاف شکایت درج کرائی جس میں اس بات پر ان کا زور تھا کہ اشتری نے بچے کو دریا میں پھینک دیا ہے۔

بچے کی ماں انجنا جلکرا نے کہا: ’نرگس نے دانستہ طور پر میرے بچے کو مارا ڈالا۔ انھوں نے اس دن مجھے کھانا پکانے کے لیے کہا۔ کھانا پکانے کی جگہ ندی سے بہت دور تھی۔ نرگس نے شراب پی رکھی تھی۔ اس نے میرے بچے کو ندی میں پھینک دیا۔ اس نے میرے بچے کو میرے سامنے مار دیا۔مز اشتری نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچہ ان کی فاؤنڈیشن کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کی نگہداشت میں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے قبائلیوں اور سرکاری افسروں کو رشوت دینے سے انکار کر دیا تھا۔لیکن ایک مقامی عدالت نے انھیں موت کا ذمہ دار قرار دیا اور انھیں تین لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے کہا۔عدالت نے کہا کہ اشتری نے ایک 'خطرناک' جگہ پر پکنک کا اہتمام کیا تھا۔ لیکن ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ عدالت نے بچے کے والدین کے بیان پر زیادہ بھروسہ کیا۔