توہین رسالت کیس میں سزایافتہ آسیہ بی بی کی حمایت اور اسلام کیخلاف پھر پراپیگنڈا شروع ہوگیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 02, 2016 | 20:29 شام

توہین رسالت کیس میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانیوالی آسیہ بی بی کی حمایت اور اسلام کیخلاف پھر پراپیگنڈا شروع ہوگیا کچھ ویب سائٹس پر آسیہ بی بی کی بیٹیوں کا انٹرویو کی آڑمیں اسلام مخالف پراپیگنڈہ ہورہاہے۔ایک ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ”ایشام اور ایشا لوگوں کی نظروں سے دور رہنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ توہین مذہب کے قانون کے تحت کئی برس سے پابند سلاسل ان کی والدہ آسیہ بی بی کی نسبت سے ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جا سکتا ہے۔(حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں) ایشام اور ایشا لاہورکی سڑک
وں پر گھومنے سےاجتناب برتتی ہیں۔ ان کی والدہ آسیہ بی بی گزشتہ چھ برسوں سے جیل میں ہیں، جس کی وجہ ان پر توہین مذہب کا وہ الزام ہے جس کی وہ تردید کرتی ہیں۔ تاہم آسیہ بی بی کا کیس خاصا ’ہائی پروفائل‘ ہے۔ وہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کی علامت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیوں کے غیض و غضب کا نشانہ بھی ہیں۔(اسے سزا عدالتوں نے دی ہے کسی جنونی نے نہیں) ایشام اور ایشا کو بہرحال یہ امید ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی والدہ کے حق میں کوئی فیصلہ آ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ اس ماہ آسیہ بی بی کے مقدمے کی ایک بار پھر سماعت کرے گی۔ آسیہ بی بی کو سن دو ہزار دس میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ والدہ کی آزادی کے لیے جدوجہد ایشام کو روم میں ویٹیکن تک لے گئی تھی۔ اپریل کے مہینے میں وہاں ان کی ملاقات پاپائے روم پوپ فرانسس سے بھی ہوئی جہاں پوپ نے آسیہ بی بی کی سلامتی کےلیے دعائیں بھی کیں۔ اس بارے میں اٹھارہ سالہ ایشام کا کہنا ہے، ”پوپ نے مجھے دعائیں دیں۔ اس سے زیادہ مجھے یاد نہیں ہے۔“ وہ مزید کہتی ہیں: ”مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پوپ میری والدہ کے لیے اب بھی دعا کر رہے ہیں، اور ان کی دعاو¿ں سے اماں کوآزادی مل ہی جائےگی۔“ایشام اور ایشا مہینے میں دو بار ملتان شہر جاتی ہیں جہاں ایک جیل میں ان کی والدہ کو قید رکھا گیا ہے۔ ایشام کہتی ہیں، ”ہم ان کوگھر کے حالات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہمارے درمیان ماں بیٹی کی طرح کی گفت گو ہوتی ہے۔“تاہم یہ ملاقات دکھ سے بھری بھی ہوتی ہے۔ ”وہ اداس ہو جاتی ہیں۔ ان کی بیٹیاں اتنی دورسے سفرکر کے ان سے ملنے آتی ہیں مگر وہ ان کو گلے بھی نہیں لگا سکتیں۔“ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آسیہ بی بی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس واچ ڈاگ ادارے کے ایشیائی ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفیفس نے کہا ہے کہ اولین تو اس خاتون کو سزا نہیں دینا چاہیے تھی۔ ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا، ”آسیہ بی بی کے مقدمے کی شفافیت کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے جاتے ہیں۔ سزائے موت کے انتظار میں اس خاتون کی قید تنہائی مبینہ طور پر ان کی ذہنی اور جسمانی صحت میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔“انسانی حقوق کے ادارے پاکستان میں توہین رسالت و مذہب کے سخت قوانین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں اکثر اوقات ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس متنازعہ قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔(آسیہ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اس نے سرِعام توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا)انسانی حقوق کی تنظیمیں توہین مذہب کے قانون میں تبدیلیوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔(تبدیلیاں بالکل ہونی چاہئیں،مذہب کی توہین پر فوری فیصلہ اور عمل ہونا چاہئے،تاکہ لوگ خود فیصلے نہ کرنے لگیں) توہینِ رسالت کے متنازعہ قانون کے حوالے سے چند حقائق۔ سن 1927 میں برطانوی راج کے وقت انگریزوں نے برصغیر میں دانستہ طور پر مذاہب کی توہین کو جرم قرار دیا تھا تاہم اس قانون میں مختلف مذاہب میں تفریق نہیں کی گئی تھی۔۔ انگریزوں کے بنائے گئے اس قانون کو پاکستان بننے کے بعد بھی قائم رکھا گیا۔ پاکستان کے سابق فوجی آمر اور صدر جنرل محمّد ضیا الحق نے1977ء میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اس قانون میں کئی اضافے کیے، جن میں سے ایک مسلمانوں کی مقدّس کتاب قرآن کی توہین کرنے پر عمر قید کی سزا رکھی گئی تھی۔(تحفظ، ناموسِ رسالت کا یہی تقاضاہے) 1984ءمیں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر خود کو مسلمان کہنے پر پابندی عائد کردی گئی اور ایسا کہنے والے کے لیے تین برس کے لیے جیل کی سزا مقرر کی گئی۔(اس سزا میں اضافے کی ضرورت ہے) 1986ءمیں ضیا الحق نے توہینِ رسالت کرنے والے افراد کے لیے موت کی سزا اس قانون میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جسے بعد ازاں 1992ء میں نواز شریف کی حکومت نے ایک قرارداد کے ذریعے منظور کر لیا۔(ایسا کرکے دونوں نے اپنی عاقبت سنوار لی) 1927ءسے لے کر 1985ءتک متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں توہینِ مذاہب سے متعلق دس مقدمے درج کیے گئے، جب کہ سن 1985 سے اب تک عدالتیں اس حوالے سے چار ہزار سے زیادہ مقدموں کی سماعت کر چکی ہیں۔ آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون کو پنجاب کی ایک عدالت نے توہینِ رسالت کے الزام میں نومبر سن 2010 میں سزائے موت سنائی۔ پانچ جنوری سن 2011 کو اسلام آباد میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو آسیہ بی بی کی حمایت کرنے اور توہینِ رسالت میں ترمیم کے مطالبے کی پاداش میں انہی کے محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔(اتنا ہی نہیں،سلمان تاثیر نے ناموس رسالت قانون کو کالا قانون کہہ کر خود بھی توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جس پر ان کے محافظ ممتاز قادری نے انہیں سربازار قتل کرکے گرفتاری دیدی اور پھانسی قبول کرلی)