ایسا کیا ہو گیا کہ بے نظیر بھٹو شہید کی بیٹی آصفہ بھٹو نے خود کشی کی کوشش کر ڈالی۔۔۔۔ بلاول ہاؤس کے گھر کے بھیدی نے بڑا راز افشاء کر دیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 01, 2017 | 16:08 شام

لاہور (ویب ڈیسک) روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار مطلوب وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری کا طرزِ سیاست اور خیالات ”میکاولی“ سے ملتے جلتے ہیں۔ محترمہ کے بھائی شہید مرتضیٰ بھٹو اور خود محترمہ کی شہادت کے زمرے میں آصف علی زرداری پر سنگین الزامات عائد ہوتے رہے اور اپنی ماں کی شہادت پر آصفہ بھٹو کی طرف سے اپنے بازو کی نس کاٹ کر خودکشی کی کوشش اور خود راقم نے محترمہ کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن کے بع

د فیڈرل کونسل اور سی ای سی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معزز ممبران کے سامنے کہہ دیا تھا کہ محترمہ بے نظیر شہید کے قتل کے چھینٹے زرداری ہاس کی دیواروں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

جب آصف علی زرداری اپنی جابرانہ صدارت کے پانچ سال پورے کر چکے اور 2013ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی شکست و ریخت سے دوچار ہوئی تو جیالوں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ پچھلے پانچ سال ہم نے حکومت نہیں کی بلکہ کسی ناکردہ جرم کا کفارہ ادا کیا ہے اور جیالوں کو امید کی ایک کرن نظر آئی کہ اب بلاول بھٹو اپنے نانا اور شہید ماں کے ویژن، سوچ اور فلسفے کو لے کر آگے بڑھیں گے اور ایک دفعہ تو ایسا لگا کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے مگر آصف علی زرداری نے جب یہ دیکھا کہ پاور کا توازن ان کے ہاتھ سے نکل کر شہید محترمہ کے بیٹے کے ہاتھ منتقل ہو رہا ہے تو صرف چند ہفتوں بعد ہی پرانے بادشاہی گُر آزمائے جانے لگے۔ پارٹی دو واضح حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آئی جبکہ اس سے پہلے خود راقم سمیت درجنوں سینئر رہنما اور جیالے ایک لمبی خاموشی اختیار کر چکے تھے، جب آصف علی زرداری جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے اور انہوں نے پارٹی پر قبضہ جمانا شروع کیا تو اس وقت پیپلز پارٹی کے ایک گروپ نے زرداری صاحب کی پالیسیوں کے خلاف پیپلز پارٹی کے اندر جی سیون کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جس میں مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر، افضل سندھو صاحب، قیوم نظامی صاحب، اسلم گِل صاحب، بدر چوہدری اور گزشتہ رروز وفات پانے والے مرحوم میاں خالد سعید صاحب اور راقم شامل تھے اس گروپ کا پہلا اجلاس راقم کے گھر ہی جوہر ٹان میں منعقد ہوا تھا۔

قارئین! آج جب مجھے آصف بھٹو اور بختاور بھٹو کا وہ ٹویٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں شہید محترمہ کی دونوں بیٹیوں نے عرفان اللہ مروت کی پارٹی میں شمولیت کی مذمت اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا اس ایک پیغام سے ملک بھر میں کروڑوں جیالوں اور جیالیوں کو ایک نئی زندگی ملی۔ آج لاتعداد دوستوں نے مجھ سے ٹیلی فونک اور بذریعہ ای میل رابطے کیے اور کہا کہ بھٹو خاندان کی یہ جوان ٹیم جس میں بلاول بھٹو، فاطمہ بھٹو، ذوالفقار جونیئر، بختاور بھٹو، آصفہ بھٹو سب اکٹھے ہو جائیں تو وہ اپنے دادا اور نانا کے مشن کو بطریقِ احسن آنے والے نسلوں کو منتقل کر سکتے ہیں وگرنہ سیاسی چیلوں اور گِدھوں کا ٹولہ جس میں آصف علی زرداری، فریال تالپور، سراج درانی، ڈاکٹر عاصم اور اس قماش کے لوگ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے زہر قاتل ہیں مگر شنید یہ ہے کہ نوازشریف کی ڈوبتی ہوئی نا دیکھ کر آنے والے ہفتے میں آصف علی زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ آصف علی زرداری کے سیاسی مردہ گھوڑے میں روح پھونک دی جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اقتدار کے سنگھاسن پر مسند افروز ہو سکے۔ قارئین! پیپلز پارٹی کی آل پارٹیزکانفرنس ایک ایسے وقت میں بلانا ایسے ہی ہے جیسے قریب المرگ جانور کے گرد گِدھوں کا منڈلانا مگر خوشی کی بات ہے کہ آصف علی زرداری کی طرف اپنے ہی گھر سے پہلا پتھر پھینکا گیا۔ جس کے عرفان اللہ مروت کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پی پی پی میں شامل نہیں ہوئے۔