عصمت چغتائی سماج کی باغی، رومان پرور ادیبہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 16, 2017 | 20:33 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک):برصغیر کی ممتاز فسانہ نگار عصمت چغتائی نے خواتین کے حقوق کی آواز بلند کی تو ان کی تحریریں تحریک بن گئیں، اپنے دامن میں بیک وقت الزامات اور اعزازات سمیٹنے والی عصمت چغتائی کو بچھڑے 25 برس ہو چکے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں ہر طرف منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے افسانہ نگاروں کا ڈنکا بج رہا تھاکہ ایک اور نام برابر آن کھڑا ہوا،یہ نام تھا عصمت چغتائی کا۔اگست 1915ء میں بھارتی صوبے اترپردیش میں آنکھ کھولنے والی عصمت چغتائی نے شعور کی آنکھ کھولی تو عورت کو محکوم، م

حروم، مظلوم پایا،عورت کو برابر ثابت کرنے کے لیے قلم اٹھایا تو ان کے افسانے اور کہانیاں تحریک بن گئیں،یہ تحریریں اردو ادب کا ستون بھی قرار پائیں۔عصمت چغتائی نے تین سو سے زائد مختصرکہانیاں لکھیں، ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، اک قطرہ خون اور بہروپ نگر نے مقبولیت کی انتہا چھوئی۔ان کا افسانہ ’لحاف‘ اپنے ساتھ فحش نگاری کے الزامات لایا، فحش نگاری کا مقدمہ بھی چلا مگر سماج کی یہ باغی کئی ادبی اعزازت کی بھی حقدار ٹھہریں۔عصمت چغتائی کی زندگی ادبی کارناموں سے ہی نہیں سجی ہوئی، ہنگامے، تنازع، مقدمے اوربدنامیاں بھی ان کے حصے میں آئیں،برصغیر کی اس بڑی ادیبہ نے، 24 اکتوبر 1991ء کو دنیا سے منہ موڑا توزندگی کی طرح ان کی موت بھی متنازع اور ہنگامہ پرور تھی۔لیکن آج بھی وہ اپنے افسانوں اور کتابوں کی وجہ سے زندہ ہیں۔