صدیوں پہ بھاری لمحات...جب مسافر مردہ ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوگئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 11, 2016 | 17:41 شام

 

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے اے ٹی آر جہاز کی پرواز سِکس سکس ون کے کریش میں اڑتالیس انسانوں کی زندگی کا چراغ بُجھنے سے شہدا کے لواحقین پر غم پہاڑ ٹوٹ گئے۔ اب انہوں نے پوری زندگی اس دکھ اور درد کے ساتھ گزارنا ہوگی۔ حادثے پر فطری طور ہر انسان صدمے سے دوچار ہے۔ یہ حادثہ اڑھائی منٹ پر محیط ہے۔ پائلٹ نے اڑھائی منٹ حادثے کا سامنا کیا اور مسافروں نے شاید ایک سے ڈیڑھ منٹ کیا ہو۔ یہ سوچ کر کہ پائلٹ کے اڑھائی اور مسافروں کے ایک منٹ تیس سیکنڈ کس کرب اور درد سے گزرے ہونگے، رونگٹے کھڑ

ے ہو جاتے ہیں‘موت سامنے ہو تو ایک ایک سیکنڈ ایک صدی سے بھاری ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال خود پر منطبق کر کے سوچیں تو انسان مسافروں پر گزرنے والی قیامت سے خود گزرتا محسوس ہوتا ہے۔

انسانی زندگی المیات، سانحات اور اندوہناک واقعات سے بھی عبارت ہے۔ انسان نے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے، اگر اس کا کوئی اور ذمہ دار ہو تو دکھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ لواحقین کا اسے اللہ کی رضا سمجھ اورکہہ کر صبرکر لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ فلائٹ 661 کا حادثہ باقی حادثات سے یوں منفرد ہے کہ کریش کے فوری بعد سول ایوی ایشن کے سیکرٹری نے کہا کہ اسکے انجن میں فالٹ تھا، اس پر اگر کسی کو یقین نہیں تھا تو بھی اگلے روز کراچی میں ایک پائلٹ کے اے ٹی آر اڑانے سے انکار پر ماننا پڑا کہ حویلیاں کی پہاڑیوں میں کریش ہونےوالے جہاز کے انجن میں مسئلہ ہو سکتا تھا۔ کراچی میں پائلٹ کو چارٹرڈ فلائٹ موہنجودڑو لے جانے کو کہا گیا جس کے انجن میں ری سٹارٹ ہونے کا پرابلم تھا۔ چترال بھی ایسا ہی جہاز بھجوایا گیا تو یہ انسانیت کے ساتھ ظلم اور انتظامیہ کی طرف سے اپنے عملے اور مسافروں کا قتل ہے۔ اس پر کوئی بھی صبر کیسے کر لے؟

انسان راہ چلتے مر جاتے ہیں، روڈ ایکسیڈنٹ میں جانیں چلی جاتی ہیں، ان پر آنسو بہاتے ہوئے صبر کرنا پڑتا ہے، برداشت کر لیا جاتا ہے۔ قتل پر صبر اور برداشت جواب دے جاتے ہیں۔ تحقیقات میں سب سامنے آجائےگا۔ بہرحال ایک ذمہ دار افسر کو ایسا پبلک بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس سے پی آئی اے کی ساکھ مزید تباہ ہوئی اور میڈیا میں نہ ختم ہونیوالی بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سیکرٹری  سول ایوی ایشن نے جو کہنا تھا انکوائری کمیٹی میں کہہ سکتے تھے۔ ایسے غیر ذمہ دار بندے کا اس عہدے تک پہنچ جانا ایسے سسٹم کی نشاندہی ہے جس نے پی آئی اے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔اے ٹی آر کے مسافروں پر وہ پانچ سیکنڈ کیسے گزرے ہونگے جب جہاز فری فال کرتا ہُوا ناک کے بل زمین کی طرف آ رہا تھا۔ اسکے بعد پانچ سیکنڈ کےلئے سٹیبل ہُوا اور پھر پانچ سیکنڈ میں ایک طرف کو مُڑ کر پہاڑی سے جا ٹکرایا۔ اسکے بعد مسافر جن میں خوف سے خون کا شاید ہی قطرہ بچا ہو، خوف، اپنی حسرتوں، تمناﺅں و ارمانوں کے ساتھ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔

آگے چلنے سے پہلے نواز رضا کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمایئے۔”

اس وقت پوری دنیا میں 1500اے ٹی او آر دنےا کے 100ممالک200آپریٹرز کے زیر استعمال ییں کہا جاتا ہے ہر 8سیکنڈمیں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں یہ طیارہ ”ٹیک آف یا لینڈنگ“ کر رہا ہو تا ہے پی آئی کے زیر استعمال 50سے72نشستوں والے اے ٹی اور42ہیں دنیا میں اسے محفوظ طیارہ تصور کیا جاتا ہے۔ 28ملین فلائٹ آورز مکمل کرنے والے ائیر کرافٹس روزانہ 5ہزارآورز پرواز کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہوائی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن پی آئی اے کے طیاروں کے اس قدر حاثات کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ یہ بات تحقیق طلب ہے۔یہ معاملہ تحقیق طلب ہے شہری ہوابازی کی ماہرین نے پی آئی کے ساتھ ساتھ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو بھی ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اے ٹی او آر ائیر کرافٹس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کے انجن ساحلی اور گرد آلود علاقوں میں پر واز کے لئے خطرناک ہیں یہ طیارے گوادر، جیونی،بہاولپوراور سکھر جےسے علاقوں میں استعمال ہوتے ہیں ان طیاروں کے بارے میں مسلسل شکایات کے بعدستمبر2016ءمیں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ان طیاروں کی پرواز پر پابندی لگا دی تھی لیکن دباﺅ کی وجہ سے ان کی مکمل اوورہالنگ کی شرط پر پرواز کی اجازت دے دی گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے 2007ءمیں پہلا اے ٹی او آر طیارہ گرنے کے بعد ان طیاروں کی خریداری نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے دباﺅپر 12 مزید اے ٹی او آر طیارے خرید لئے گئے ۔ دلچسپ امر یہ ہے 12نئے اے ٹی اور طیارے پاکستان لائے گئے تو ایک طیارہ لینڈنگ کرتے ہوئے تبا ہ ہو گیا۔ اے ٹی اور آر کی خریداری میں کمیشن کی وصولی زبان زد عام ہے۔ سب بڑا پرابلم ان طیاروں کی ”مینٹننس“ کا ہے۔ پی آئی کے کرپٹ افسران طیاروں کے پرزوں کی خریداری میں گھپلے کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے پرزے نہ ملنے پر سول ایوی ایشن اتھارٹی سے ویور لیتی رہی ہے۔ پرزے نہ ملیں تو کسی چلتے پھرتے جہاز کے پرزے نکال کر اسے گراﺅنڈکر دیا جاتا ہے اور اس کے پرزے دوسرے جہاز کو لگا دئیے جاتے ہیں ۔ طیارے کے حادثے میں 47قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں ان میں سے بیشتر کا تعلق چترال سے ہے چونکہ اس حادثے میں شہرہ آفاق مبلغ جنید جمشید اور ان کی اہلیہ وفات پاگئیں جب کہ دوسری اہم شخصیت ڈی سی چترال اسامہ احمد وڑائچ کی ہے جو اپنی اہلیہ اور 9ماہ کی بیٹی مہ رخ کے ہمراہ جاں بحق ہو گئی۔ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والی دونوں شخصیتوں کو میڈیا نے نمایاں کوریج دی جس میں چترال کے جاں بحق ہونے والوں کو قدرے نظر انداز کر دیا گیا جس کاایک چترالی نے پارلیمنٹ ہاﺅس کی مسجد کے امام کے حجرے میں مولانا فضل الرحمنٰ کی موجودگی میںکیا میں ماضی کے پاپ سنگر جنیدجمشید کے نغموں کا کبھی شوقین نہیںرہا لیکن جب سے اس نے موسیقی کو خیرباد کہہ کر کر اللہ سے لو لگائی تو اس کا گرویدہ ہو گیا اس وقت اس کا بینک بیلس35کروڑ روپے تھا۔ موسیقی سے کمائی ساری رقم کو انہوں نے سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹادی اور پھر انہوں نے نئے سفر کا آغاز کیا تو اللہ تعالی نے دین اور دنیا دونوں کی دولت سے مالا مال کر دیا“۔

میری آج پھر اس واقعہ پر نظر ہے جس میں ایک جہاز کے مسافروںکو موت اور قیامت کا سامنا تھا۔یہ ایسے طیارے کی کہانی ہے جس کے مسافروں کو دنیا نے مُردہ قرار دے دیا تھا۔ یہ واقعہ 1972ءمیں پیش آیا تھا۔ جنوبی امریکہ کے ملک یوراگوئے کے کالج کے لڑکے رگبی میچ کھیلنے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ ہمسایہ ملک چلی جا رہے تھے۔ 13 اکتوبر 1972ءکی شام کو ایئر فورس کے چارٹر جہاز فیئر چائلڈ ایف ایچ 227 ڈی کی پرواز 571 نے ارجنٹائن کے ایک مقامی ایئر پورٹ مینڈوزا سے اڑان بھری شروع کی، جہاز کی منزل چلی کا دارالحکومت سینڈی ایگو تھی۔

اس میں 45 مسافر سوار تھے۔ جہاز کو ایک پہاڑی سلسلے اینڈیز کے اوپر سے گزرنا تھا۔ یہ پہاڑی سلسلہ 23 ہزار فٹ تک بلند ہے لیکن موسم کی خرابی اور پائلٹ کی غلطی کے باعث جہاز ایک چٹان سے ٹکرانے کے بعد انتہائی برفانی چوٹی پر کریش کر گیا۔ خوش قسمتی سے پہاڑوں پر 15 فٹ سے زیادہ برف ہونے کے باعث جہاز کے پرخچے نہ اُڑے اور جہاز پھسلتا ہوا چوٹی سے ٹکرانے کے بعد نیچے کی جانب آیا، جہازمیں بیٹھے زیادہ تر مسافر محفوظ رہے۔ کنٹرول ٹاور سے جہاز کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جہاز کو حادثہ پیش آ چکا ہے لیکن جہاز کی جائے حادثہ کا کسی کو معلوم نہ تھا۔ جہاز کی تلاش شروع کی گئی اور آٹھ دس دن تک ریسکیو ٹیمیں جہاز کی تلاش کرتی رہیں لیکن شدید برفانی طوفان کے باعث یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز میں بیٹھے تمام مسافر مر چکے ہیں اور بالآخر جہاز کو گمشدہ کہہ کر تمام مسافروں کو مردہ قرار دے دیا گیا۔

 

جہاز پر سوار مسافروں کے پاس کھانے کےلئے کچھ بھی نہ تھا تاہم پناہ گاہ کے طور پر جہاز کا ڈھانچہ موجود تھا۔ حادثے کے باعث 45 میں سے 16 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ ہلاک شدہ افراد کو جہاز میں سے نکال کر باہر برف میں دفن کر دیا گیا۔ 29 مسافر زندہ بچے تھے لیکن 5 کی حالت نازک تھی۔ بچ جانےوالے مسافروں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا درپیش تھا، اسکے علاوہ جہاز کے باہر 15 سے 20 فٹ گہری برف تھی سب سے بڑھ کر 15 ہزار فٹ کی بلندی پر شدید برفانی طوفان تھا۔ جہاز میں وائن کی چند بوتلیں اور صرف 10 سے 12 چاکلیٹس موجود تھیں جبکہ کھانے والے 29 لوگ۔ یہ 12 چاکلیٹس 8 دن تک کھائی گئیں۔

Saved: Survivors of the crash wave to rescue helicopters after their 72-day ordeal in the Andes

ٹرانزسٹر کے ذریعے باقی مسافروں کو نویں دن علم ہوا کہ انہیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے اور ریسکیو ٹیموں نے انکی تلاش بند کر دی ہے۔ بھوک کی وجہ سے ان مسافروں کا بُرا حال تھا اور جب یہ علم ہوا کہ اب انکی امداد کو کوئی نہ آئے گا تو تمام مسافر شدید پریشانی کا شکار ہو گئے۔ مزید 3 دن تک مسافروں نے انتظار کیا لیکن اب بھوک کے باعث ان کا بُرا حال تھا۔ آخر کار ان مسافروں نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ مر چکے ہیں انکا گوشت کھا لیا جائے۔ ان مسافروں نے ایک دوسرے سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر ان میں سے کوئی مر جائیگا تو باقی لوگ اس کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ یہ مفلوک الحال مسافر شدید بے چارگی کے عالم میں 72 دن یعنی اڑھائی ماہ تک اس ”برفانی جہنم“ میں رہے۔ شدید برفانی طوفان، بھوک، کمزوری اور بیماریوں کے باعث 29 لوگوں میں سے صرف 16 لوگ زندہ بچے جبکہ 13 لوگ حادثے کے بعد ہلاک ہوئے۔

Traumatic : Roberto Canessa when he was rescued as a 19-year-old medical student  and today

 

ان 16 لوگوں میں سے 2 بہادر نوجوانوں نے 20 ہزار فٹ سے زائد اونچا پہاڑ عام جوتوں اورکپڑوں میں عبور کیا اور نزدیک ترین قصبہ یہ بھی 60 کلومیٹر دور تھا میں جا کر مدد حاصل کی اور یوں ان لوگوں کو 24 دسمبر 1972ءکو نئی زندگی ملی۔ ان میں سے کئی آج بھی دنیا موجود ہیں۔

 

Survivors: Passengers shelter near the tail of the Uruguayan plane which hit a mountain shrouded in mist as it

flew from Santiago to Montevideo

دنیا بھر میں اس واقع کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بقا کی کہانی کہا جاتا ہے۔ آج بھی جب کوہ پیما اس پہاڑ پر جاتے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ کس طرح دو نوجوانوں نے ان پہاڑوں کو

عام لباس میں عبور کیا ششدر رہ جاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان کی قوت ارادی مضبوط اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہو تو انسان سب کچھ کر سکتا ہے۔ حرف یہ کہ جو مسافر جنید جمشید کے ساتھ راہی عدم ہو گئے ان میں ہم میں سے بھی کوئی ہو سکتا تھا۔ ہم میں سے کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے جس میں اپنے ساتھی ہی ساتھی کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہ بات ان لوگوں کے سمجھنے کی ہے جن کے پیٹ پانامہ اور آف شور کمپنیوں سے بھی نہیں بھر رہے۔

Wreckage: A body lies in snow outside the shell of the plane. It was 72 days before the 16 who survived

the crash were rescued