کیا خواتین ہاتھوں کا کھلونا ہے بس۔۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 16, 2017 | 20:19 شام

آج سویرے دفتر جانے سے پہلے سر پر طریقے سے سکارف لیا اور کندھوں پر ڈالی ہوئی کالی چادر سے میں نے تقریباً اپنا تمام جسم ڈھانپ لیا۔ میں نے چونکہ نیا نیا مذہب پڑھنا شروع کیا ہے تو پردے کا خاص اہتمام کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔گھر سے گاڑی نکالی اور دفتر کی جانب چل دی۔ گھر کے دائیں جانب ایک چھوٹی سی گلی سے گذر کر مین روڈ آتی ہے۔ گلی میں داخل ہوتے ہی میں نے دور سے ایک نو عمر لڑکے کو دیکھا جو گندی چادر میں بکل مارے بیٹھا تھا۔ گاڑی لڑکے کے قریب سے گذرنے لگی تو میری چھٹی حس نے مجھے چوکنا کر دیا۔ جوں ہی گاڑ

ی قریب گئی تو لڑکا کھڑا ہوا اور شیشے کے بالکل قریب آ گیا اور اپنی چادر سرکا دی۔ اس کا نیم برہنہ جسم دیکھتے ہی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور میں نے ریس پر پاؤں دبا دیا۔ گلی سے باہر نکل کر سانس بحال کرنے کی خاطر گاڑی روکی تو گویا سانس اور اکھڑنے لگا۔ ماضی کے پردے پھڑپھڑانے لگے اور ہولے ہولے مجھ جیسی چادر میں لپٹی اور پکی عمر کی عورت بھی کانپنے لگی۔

جی نہیں۔ میں بچپن میں کسی جنسی زیادتی کا شکار نہیں ہوئی اور نہ کبھی کسی نے مجھے اغوا کرنے کی کوشش کی مگر مجھے اب تک یاد ہے کہ جب میں ایک چھوٹی بچی ہوا کرتی تھی تب بھی میں نے کپڑوں میں ملبوس اس قسم کے کئی نیم برہنہ جسم دیکھے تھے۔ سکول کا چوکیدار۔ گھر آنے والا مالی۔ وین کا ڈرائیور اور نہ جانے کون کون۔ اور میری ماں، جب خاندان کی محفلوں میں مجھے چند مخصوص رشتے کے ماموں اور چچاوں کے پاس نہیں جانے دیتی تھی۔ شاید وہ بھی کئی بار ایسی برہنگی دیکھ چکی ہو۔یہ کہانی صرف میری نہیں۔ پاکستان میں رہنے والی ہر تیسری عورت کی ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بعد بھی زندگی میں کسس کس جگہ ہمیں اس جنسی ہراسیت کا شکار نہیں ہونا پڑتا ہے۔ ایک معمولی فقیر ہو یا کسی کمپنی کا سی ای او۔ عورت ایک جنسی کھلونے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ ہر شخص یہاں مختلف انداز میں اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے گھاک لگائے بیٹھا ہے۔ پھر وہ عورت چاہے بغیر دوپٹے کے ہو یا چادر میں لپٹی ہو۔دفتروں میں بیٹھے پڑھے لکھے سوٹ بوٹ پہنے یہ بھیڑیے، کمپیوٹر اور موبائل سکرینز کے پیچھے چھپے رال ٹپکاتے یہ گدھ۔ یہاں ہر کوئی ہر وقت عورت کو مال غنیمت سمجھے بیٹھا ہے۔فیس بک پر کوئی دوستوں کی لسٹ میں ایڈ ہو کر اپنے چسکے پورے کرتا ہے تو کوئی پرائیویٹ میسج بھیج کر اور عذر سب کا ایک ہی ہے کہہ عورت نے اپنی تصویر کیوں لگائی ہے۔ مانا کہ کئی بار عورتوں کی بھی غلطیاں ہوتی ہیں مگر بھائی گاوں اور کسی گوٹھ میں بیٹھی عورت کا کیا قصور؟ باہر جا کر پڑھنے والی لڑکی کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ اپنا مستقبل روشن کرنا چاہتی ہے۔ کام کے لئے گھر سے قدم نکالنے والی عورت کا یہ قصور ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا چاہتی ہے۔ہمارے معاشرے کے کئی مسائل کے ساتھ عورت کی آزادی بھی ایک مسئلہ ہے اور جنسی ہراسیت اس آزادی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس بارے میں حکومت نے کئی طرح کے قوانین اور محتسب تو بنا دیے ہیں مگر کسی یتیم بچے کی طرح ان کا کوئی والی وارث نہیں۔حال ہی میں ’پی ایس سی اے‘ کے نام سے حکومت پنجاب کی جانب سے ایک موبائل ایپ لانچ کی گئی ہے جو خواتین کو ایسی جنسی ہراسیتت سے بچاؤ میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے مگر یہ مسئلہ چند دنوں اور مہینوں میں حل ہونے والا نہیں بلکہ اس کے لئے کئی سال درکار ہیں مگر سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو عورت کی عزت کرنا سکھائیے اور بچیوں کو ایسا اعتماد دیں کہ نہ صرف وہ آپ سے اس قسم کے مسائل پر گفتگو کر سکیں بلکہ انہیں انفرادی طور پر حل بھی کر سکیں۔ کیونکہ جنسی ہراسیت کا شکار ہر عورت ہے۔ ایک سال کی بچی سے لے کر ساٹھ سال کی بڈھی تک۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔