دنیا کا سب سے خطرناک راستہ جہاں سے گزرنے والی ہر لڑکی کا ریپ کردیا جاتا ہے۔۔۔۔تفصیل جان کر آپ کے ہوش بھی اڑ جائیں گے۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 02, 2017 | 20:29 شام

تریپولی (مانیٹرنگ ڈیسک)لیبیا میں جنگ کی تباہی سے بچنے کے لئے مصیبت زدہ لوگوں کو ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ کسی طرح اپنے تباہ حال ملک سے فرار ہوکر یورپ کا رُخ کریں، مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ فیصلہ انہیں ایک ایسے راستے کی جانب لیجاتا ہے کہ جہاں ان کی عزتیں لٹ جاتی ہیں اور زندگی بچنا محال ہو جاتا ہے۔ 
دی گاڑین کی رپورٹ کے مطابق لیبیا اور اس کے ہمسایہ افریقی ممالک میں جاری خون اور آگ کے کھیل سے جان بچاکر یورپ جانے کی کوشش کرنے والی خواتین اور بچوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور ان

کی عصمت دری کے بعد انہیں جنسی غلام بنالیا جاتا ہے، یا انسانی سمگلروں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ا قوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور حتیٰ کہ کم عمر بچوں کی بھی عصمت دری کی جارہی ہے اور انہیں غلام بنا کر ان سے جسم فروشی بھی کروائی جاتی ہے۔ اغوا کار انہیں راستے سے پکڑ کر حراستی مراکز میں لے جاتے ہیں جہاں ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال ایک لاکھ 81 ہزار پناہ گزین بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچے۔ ان میں 25ہزار 8000 ایسے بچے بھی شامل تھے جن کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ ان کی مائیں اور بہنیں ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بن گئیں جو گھات لگائے ان کا شکار کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ اب کسی کومعلوم نہیں کہ یہ ہزاروں خواتین اور لڑکیاں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ پناہ کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑنے والے ان بدنصیبوں پر ہونے والے ظلم کا کیا عالم ہے، اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی ادارے یونیسیف کے بیان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے، جس میں کہا گیا کہ ”ہزاروں تارک وطن خواتین اور بچوں کے لئے یہ حراستی مراکز جہنم کے گڑھوں جیسے ہیں۔“ اس عذاب سے گزر کر اٹلی پہنچنے والی کچھ خواتین اور لڑکیوں نے بتایا کہ ان کی عصمت دری کرنے والوں نے وردیاں پہن رکھی ہوتی تھیں اور بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ وہ کسی فوج کا حصہ تھے۔ عورتوں اور حتیٰ کہ کمسن بچیوںکا بھی کہنا تھا کہ انہیں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ نوعمر لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں مانع حمل گولیاں کھانے پر بھی مجبور کیا جاتا تھا تاکہ بار بار عصمت دری سے وہ حاملہ نہ ہوجائیں۔ ان خواتین اور لڑکیوں کا کہنا تھا کہ افریقہ سے یورپ کے سفر کے دوران انہیں درجنوں مقامات پر درجنوں بار حیوانیت کا نشانہ بنایاگیا۔ ترک وطن کرنے والے لاتعداد خاندانوں کی یہی کہانی ہے، جن کی عورتوں اور بچیوں کی بڑی تعداد اب بھی درندہ صفت مجرموں کے قبضے میں ہے، اور ان کی آہ بکا سننے والا دنیا میں کوئی نہیں۔اور نہ ہی گزرتے وقت کے ساتھ کوئی ایسا انسان آ رہا ہے جو ان کی عزتوں کی ذمہ داری کسی فوج کے ہاتھ میں دے۔ تاکہ ہجرت کرنے والی خواتین بھی با عزت  اپنا ملک چھوڑ سکیں۔