دنیا کے وہ حیرت انگیز ممالک جو اپنے شیریوں کو زیادہ سے زیادہ جنسی تعلقات کے لیے زور دیتے ہیں۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 06, 2017 | 20:45 شام

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) غریب ممالک کی حکومتیں اپنی عوام کے سامنے گڑگڑا رہی ہیں لیکن وہ شرح پیدائش کم کرنے پر بالکل تیار نہیں ہو رہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اسی دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں کہ جن کے عوام آبادی بڑھانے میں زرا دلچسپی نہیں لے رہے، اور ان کی حکومتیں آبادی بڑھانے کے لئے طرح طرح کی ترغیبات دے رہی ہیں۔ دی انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ملک ڈنمارک میں اوسط شرح پیدائش کم ہوتے ہوتے 1.73 بچے فی خاتون پر آ چکی ہے۔ حکومت اس صورتحال سے سخت پریشان ہے اور اپنے شہریوں کو آبادی بڑھان

ے کی جانب مائل کرنے کے لئے اشتہارات دے رہی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے اشتہارات میں لوگوں سے اپیل کی گئی”ڈنمارک کی خاطر یہ کریں۔“ بچہ پیدا کرنے والے جوڑوں کے لئے حکومتی خرچ پر چھٹیوں اور بچے کے لئے تین سال تک کے اخراجات کی پیشکش بھی کی جارہی ہے۔روس میں شرح پیدائش میں اضافے کے لئے ہر سال 12 ستمبر کو یوم حمل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس مخصوص دن کے 9ماہ بعد بچے کے پیدائش کی صورت میں والدین کو مفت ریفریجریٹر کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ جاپانی حکومت نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی حکومتی اخراجات پر ملاقاتوں کا بندوبست کررکھا ہے تاکہ وہ جلد از جلد شادی کر کے بچوں کی پیدائش کی جانب مائل ہوسکیں۔ رومانیہ کی حکومت بھی شرح پیدائش میں اضافے کے لئے ہر ممکن کوشش کرچکی ہے۔ یہاں اولاد پیدا نہ کرنے والوں کو جرمانے کرنے سے لے کر خواتین کو زبردستی بچوں کی پیدائش پر مجبور کرنے جیسی پالیسیاں بھی نافذ رہیں۔ اگرچہ جابرانہ پالیسیوں کا اب خاتمہ ہوچکا ہے لیکن تاحال شرح پیدائش 1.31 بچہ فی خاتون سے اوپر نہیں جاسکی۔ سنگاپور کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح پیدائش دنیامیں کم ترین سطح پر ہے۔ یہاں شرح پیدائش فی خاتون ایک بچہ کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ سنگاپور کی حکومت حب الوطنی کے نام پر بچوں کی تعدادمیں اضافے کی اپیل کررہی ہے۔ عوام کو آبادی میں اضافے کی جانب مائل کرنے کے لئے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر (ڈیڑھ کھرب پاکستانی روپے) سے زائد رقم خرچ کی جارہی ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا، اٹلی اور ہانگ کانگ جیسے ممالک بھی کم شرح پیدائش کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں عوام کو آبادی میں اضافے کی جانب مائل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں، مگر تاحال کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ اور دوسری طرف اسی دنیا کے لوگوں نے بچوں کی  پیدائش پر پابندی لگا دی ہے۔