بی پلان اور شیورٹی بانڈ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 22, 2019 | 17:09 شام

مولانا فضل الرحمن عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفے کا عزم لئے لشکر کے ساتھ اسلام آباد آئے۔وہ مردِ مومن اور شریعت کے پابند ہیں۔ عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے تین دن دئیے۔ تین دن گزرے اور پھر ایک کے بعد دوسرا تیسرا اور دنوں کے بعد ہفتے گزرنے لگے مگر مولانا مایوس نہیں ہوئے۔مولانا چونکہ عالم دین ہیں اس لئے مایوسی کو کفر سمجھتے ہوئے اس مصرعے پر عمل پیرا نظر آتے تھے…ع

’’پیوستہ

رہ شجر سے امید بہار رکھ ‘‘

مولانا کے پیروکار تین برس آٹھ ماہ کے راشن کا بندوبست کر کے آزادی مارچ میں شریک ہوئے تھے۔ کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا ہے۔ تین سال 8 ماہ بعد حکومت کی آئینی اور وزیر اعظم عمران خان کی بطور وزیراعظم بشرطیکہ زندگی کی میعاد پوری ہو جائیگی تواستعفیٰ دے دینگے اس پر مولانا اپنے مطالبے کی بجاآوری پر بجا طور پر بغلیں بجا سکیں گے۔ وہ کسی بھی صورت استعفیٰ کے بغیر دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس عزم صمیم کا اظہارمنگل 12نومبر کی شام دھرنے سے پُرجوش خطاب میں کیا اور پھر اگلے روز شام کو اس سے بھی زیادہ ولولے سے خیمے اکھاڑنے اوردھرنا اجاڑنے کا اعلان کردیا۔پہلے روز فرمایا کشتیاں جلا دی ہیں۔ اب یہ کشتیاں مولانا کی طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کے مرہون معجزاتی ثابت ہوئیں جو جلنے کے باوجود ضرورت پڑنے پر اصل حالت میں موجود تھیں۔…؎

ہم کو معلوم ہے اس کا انجام

جس معرکے کے ملا ہوں غازی

مولانا نے اپنا مقصد سیاسیات بلکہ مقصد حیاتیات و اقتداریات حاصل کرنے کیلئے کچھ پلانز ترتیب دیئے۔ اب انہوں نے پلان بی پر عمل کا اعلان کیا ہے۔ پلان اے میں آزادی مارچ اور دھرنا شامل تھا۔ پلان اے کے ’’کامیابی‘‘ سے ہمکنار ہونے کے بعد پلان بی سامنے لایا گیا۔ گو مولانا کی بظاہرعمران خان کی اقتدار سے چھٹی کی خواہش پوری نہیں ہوئی مگر یہ یونیورسل ٹروتھ مجسم نظر آیا جس کے تحت کہ کسی کی ناکامی کسی کی کامیابی بھی ہوتی ہے۔ مولانا کے دھرنے سے مودی سرکار شاداں و فرحاں نظر آئی ۔ کشمیر ایشو بلندیوں پر تھا جو دھرنے پر میڈیا کی توجہ کے باعث عالمی منظر نامے سے اوجھل ہو گیا۔ مودی نے ایک نہیں کئی بار کہا سی پیک قابلِ قبول نہیں۔ اسے سرے چڑھنے دینگے نہ خطے میں ون بیلٹ ون روڈ بننے دینگے۔ سی پیک کے تحت شاہراہیں بن گئیں۔ تجارت ہونے لگی۔ مولانا نے ان کو اپنے پلان بی کے تحت بند کرا دیا جس پر ’’موگیمبو ناچ رہا ہو گا۔ منا بھائی لگے رہو!‘‘کسی اینکر نے مولانا سے پوچھا‘ آپ کے احتجاج سے کیا ملک افراتفری کا متحمل ہو سکتا ہے؟ تو ان کا ارشاد تھا نہیں ہو سکتا تو رکھو اپنا ملک۔

ایک موقع پر فرمایا ڈی چوک میں جگہ کم ہے وہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سما نہیں سکتا۔مگر پھر آسمان نے بھی دیکھا۔ دھرنے کی تلاطم خیز موجوں میں ٹھہرائو آنے لگا۔ سرکش لہریں سرنگوں ہونے لگیں۔ دھرنے والے بکھرنے لگے۔ انسان کی طرح سردی میں دھرنا بھی سکڑنے لگا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنے اپنے لیڈروں کی صحت کی فکرستانے لگی۔گویا جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔؎

اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

یہ رنج و الم کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

مولانا نے بھی دھرنا اُٹھاتے ہوئے اتحادیوں سے پوچھا نہ رہبر کمیٹی کو خبر دی۔ویسے مولانا کو شاید تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کا زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے ، انکی منزل شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر مولانا طاہر القادری کی آنجہانی پارٹی پاکستان عوامی تحریک نے آسان کر دی ہے۔ خرم نواز گنڈا پور نے عوامی تحریک کی طرف سے حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے گویا جن بیساکھیوں پر حکومت سوا سال سے کھڑی تھی وہ عوامی تحریک نے کھینچ لی ہیں۔ ایسے ہی جیسے پی پی اور لیگ نے مولانا کو ساتویں آسمان پر پہنچا کر سیڑھی کھینچ لی۔

اُدھر میاں نواز شریف کی علالت پر سیاست ہو رہی ہے۔ کوئی میاں صاحب کی علالت کو ڈرامہ کہہ رہا ہے کوئی انکے لندن جانے کو سودا بازی قرار د ے رہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ انہوں نے تحقیق کرائی،میاں نواز شریف واقعی بیمار ہیں ان کو مرضی کا علاج کرانے کی سہولت ہونی چاہئے۔ میاں نواز شریف کے باہر جانے کو ان پر کئے گئے جرمانے کو ساڑھے سات ارب کے بانڈ سے مشروط کر دیا گیا۔ یہ میاں نواز شریف کی حیثیت کے لحاظ سے بڑی رقم نہیں ہے مگر انہوں نے ضمانتی بانڈ دینے سے انکار کر دیا۔ مبادا کوئی سیاسی نقصان ہو جائے ۔ ہمارے کلچر میں پیاروں کی جان بچانے کیلئے لوگ جائیدادیں بیچ دیتے ہیں‘ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاتے ہیں، چنانچہ بانڈ سے انکار چہ معنی دارد؟

میاں صاحب کی بیماری پر سیاست کے ساتھ ایسے سوالات بھی سفاکانہ سوچ کا اظہار ہیں جن میں کہا جا رہا ہے، میاںبرادران نے ایسی بیماریوں کے علاج کیلئے پاکستان میں ہسپتال کیا اس لیے نہیں بنائے تھے کہ آج انکے پاس باہر جانے کا بہانہ نہ ہوتا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے، کیا لندن کے ہسپتالوں ہی میں زندگی ملتی ہے۔ کیا ہمارے ہسپتال موت کے کنوئیں ہیں؟ ہمارے ڈاکٹروں کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان آگیا؟ کیا مریم کی والدہ کو لندن کے ہسپتال زندگی دے سکے تھے؟ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان پر اسکی حفاظت اور علاج کی ہرممکن کوشش لازم ہے۔ لیگی لیڈر اَڑی اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیں، بانڈ دے دیں۔ میاں نواز شریف کی صحت خراب نیت صاف ہے، بانڈ بھرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مریم نواز اپنے والد کی صحت و تندرستی کا سوچیں‘ جان ہے تو جہان ہے، سیاست جائے بھاڑ میں۔ لیگی قیادت نے کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے،اس وقت تک دیر نہ ہوجائے۔ ہم عوام ویسے بھی بیوقوف ہیں‘ ڈراموں پر بھی صدقِ ایمان سے یقین رکھتے ہیں۔