بانو قدسیہ کے مشہور ناول راجہ گدھ کا مرکزی خیال کیا ہے ؟ جن لوگوں نے یہ شہرہ آفاق ناول نہیں پڑھا وہ یہ خبر پڑھ کر جان لیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2017 | 05:59 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) یوں تو بانو قدسیہ نے مختلف اصناف پر مشتمل دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں، تاہم جو شہرت اور مقبولیت 'راجہ گدھ' کو حاصل ہوئی، وہ ان کے کسی اور ناول کو حاصل نہیں ہو سکی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہو گا کہ یہ گذشتہ نصف صدی کا مقبول ترین اردو ناول ہے۔ ایک گنتی کے مطابق اب تک اس ناول کے کم از کم ڈیڑھ درجن ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

 1981میں سامنے آنے والے اس ناول میں انھوں نے مڈل کلاس سے تعلق رکھ

نے والوں کی کہانی بیان کی ہیں جو زندگی کا مقصد اور اسے گزارنے کا قرینہ ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔آخر ایک پروفیسر کی گفتگو میں انھیں وہ کلید مل جاتی ہے جس کی بنیاد پر زندگی گزاری جا سکتی ہے، اور وہ ہے بانو کا مشہور حرام و حلال کا مابعد الطبیعاتی نظریہ۔

بانو قدسیہ نے خود ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس ناول کی وجہِ تخلیق کچھ یوں بتائی تھی کہ ایک امریکی طالبِ علم سے بحث کرتے ہوئے انھیں اس سوال کا جواب نہیں مل پایا تھا کہ آخر اسلام دوسرے مذاہب سے کس طرح مختلف ہے۔ بقول ان کے آخر ایک دن گھر میں لگے سندری کے درخت سے، جس کی لکڑی سے سارنگی بنتی ہے، ایک آواز آئی جس نے انھیں نکتہ سمجھا دیا۔وہ نکتہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی ایسے عمل ہیں جو صرف ایک زندگی تک محدود نہیں رہتے بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جینیاتی طور پر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی حرام کھاتا ہے تو یہ عمل اس کی نفسیات پر اثرانداز ہو کر اس کی شخصیت کو بدل دیتا ہے۔بہت سے لوگوں کو اس ناول کے مابعد الطبیعاتی پہلوؤں سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے اردو کے چند گنے چنے اعلیٰ ترین ناولوں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔بانو قدسیہ کے ناولوں، افسانوں اور ڈراموں میں فکریات کے دو واضح دھارے ملتے ہیں۔ ایک نسوانیت اور دوسرا صوفی ازم۔ وہ اشفاق احمد اور ان کے قریبی ساتھیوں قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی سے بہت متاثر ہوئی تھیں اور انھوں نے 'مردِ ابریشم' کے نام سے شہاب پر کتاب بھی لکھی۔بظاہر صوفی ازم اور نسوانیت دو مختلف چیزیں ہیں، تو انھیں بانو نے کیسے ایک ساتھ نبھایا؟ اس سوال کے جواب میں حمید شاہد نے کہا: 'ان کی نسوانیت ایسی نہیں جو مردانہ معاشرے سے بغاوت پر آمادہ کرے، ان کی عورت مرد سے زیادہ دور نہیں جاتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے ہاں بعض جگہوں پر عورت کے مر مٹنے کا جو تصور ملتا ہے، وہ جا کر ان کے صوفی ازم سے بھی مل جاتا ہے۔