بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی بابا۔۔۔۔۔۔ دنیا کو سمجھاو نا۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 14, 2017 | 06:50 صبح

۔۔۔آپ کو اپنی بیوی کی جان لینی ہے کیا؟ لیڈی ڈاکٹر نے رضیہ کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد مبشر کو اندر کمرے میں بلوا بھیجا تھا. اور اب عینک کی اوٹ سے مبشر کو کڑی نظروں سے گھورتے گویا ہوئی. ۔۔مبشر نے پہلو بدلا۔ آپ کی مسسز میں خون کی بیحد کمی ہے اور بھی کئی پیچیدگیاں ہیں۔ پانچواں حمل کسی طور مناسب نہیں تھا جب کہ بچے بھی سیزر سے ہوتے ہوں.۔۔۔لیڈی ڈاکٹر کا سخت لہجہ مبشر کو خون کے گھونٹ بھر کر سننا پڑا... ۔اس کے گھر کی کوئی عورت ایسے بولتی تو اس کی زبان گدی سے باہر کھینچ لیتا۔ اس نے غصیلی نظر اپنی بیوی

رضیہ پر ڈالی جو کالے نقاب میں سر جھکا کر بیٹھی تھی. ۔سیزر کا ٹنٹنا نہ ہوتا تو گاؤں کی دائی رحیمہ سے بھی کیس کروایا جاسکتا تھا مبشر نے رومال کندھے پر ڈالتے سوچا. اولاد اللہ کی رضا سے ہوتی ہے۔ بیٹے ہوں یا بیٹیاں, اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہوتا تم لوگ یہ بات نہیں سمجھتے۔ لیڈی ڈاکٹر مزید گویا ہوئی۔اس بار مبشر بھڑک اٹھا بات سن بی بی! ادھر پیسے میں نے چیک اپ کے لئے جمع کروائے ہیں تیری باتیں سننے کے لئے نہیں. مبشر نے اتنا ہی کہا کہ لیڈی ڈاکٹر اپنی سیٹ سے ایکدم کھڑی ہوگئی. اجڈ جاہل لوگ ہو تم, عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ رکھا ہے۔ فورا نکلو یہاں سے میں یہ کیس لینا بھی نہیں چاہتی جس میں تم نے بیوی کو مارنے کی پلاننگ کر رکھی ہے ڈاکٹر نے بیل بجائی تو چپراسی دوڑا آیا اٹھ اب منہ کیا دیکھ رہی ہے۔ مبشر نے رضیہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تن فن کرتا باہر نکلتا گیا ساتھ رضیہ بھی گھسٹتی جارہی تھی ڈاکٹر کا نسخہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا تھا.۔۔۔

**************************

سنبھال اس کو اماں آج اس نے ڈاکٹرنی کے آگے میری بے عزتی کروائی ہے. گھر میں آتے ساتھ مبشر نے رضیہ کو زور دار قسم کا دھکا دیا تو وہ صحن کے بیچوں بیچ رکھی چارپائی سے جا ٹکرائی ہاتھوں سے اگر چرپائی کا پایاں نہ پکڑ لیتی تو سیدھا زمین پر جاگرتی. اب بھی دھکے کے سبب ابھرے گول پیٹ میں موجود سانس لیتی جان مچھلی کی طرح تڑپ گئی تھی۔ رضیہ وہیں لکڑی کے پائے کے ساتھ فرش پر بیٹھ گئی۔ کیا کردیا اس کرموں جلی نے, اماں جو اسی چارپائی پر پیر لٹکائے بیٹھی تھی تنفر سے پوچھنے لگی۔ جب سے بیاہ کر آئی ہے کبھی سر اونچا بھی کیا ہے میرا , ہمیشہ بے عزتی کروائی ہے۔ وہ منہ پھلا کر ماں کے برابر جا بیٹھا. ہک ہا, کیا کیا ارمان لے کر تیرا ویاہ اس کرم جلی سے کروایا تھا کیا خبر تھی میرے ایک و اک لعل کو کمبخت جوانی میں بوڑھا کردے گی۔چار چار ڈائنیں پیدا کرکے, گردن جھکادی ہماری برادری میں, قطار کھڑی کردی لڑکیوں کی۔ اماں نے پیر سے رضیہ کو ٹھڈا مارا. اتنے پیسے خرچ کرکے اس کا آپریشن کرواتے ہیں گھر لے کر آتی ہے منہ کی کالک۔ آس پڑوس کی عورتیں ہنسی کرتی ہیں کہ بھئی ہم نے تو دائیوں کے ہاتھوں جنے وہ بھی شہزادوں جیسے لعل اور تیری بہو آتے روپے خرچ کرواکر ساتھ لاتی ہے سوکھی سڑی کڑیاں۔ اماں سرد آہیں بھرنے لگی. اماں اس بار اگر لڑکا نہ ہوا نا تو دیکھنا کیسے اس کو دھکے مار کر گھر سے نکالتا ہوں حاجرہ ویسے بھی میرے ساتھ نکاح کو ترس رہی ہے تیری مرضی تھی کہ اپنی بہن کی بیٹی لانی ہے. مبشر نے اپنے آئیندہ لائحہ عمل سے آگاہ کیا تو رضیہ کا دل دھڑک اٹھا اسی دن کے خوف سے تو اس نے اپنے لاغر اور ناتواں وجود کو پانچویں بچے کے لئے آمادہ کیا تھا ورنہ تو اس میں تنکہ اٹھانے کی بھی سکت نہ رہی تھی پے در پے ضائع ہوتے حمل جب ٹہرتے تو لڑکے کی امید بندھ جاتی اور پھر لڑکی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا ایک لڑکی ہوتی تو پیچھے دو حمل ضائع ہوجاتے علاج کون کرواتا یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر رضیہ کی ساس دو ہتھڑ سینے پر مار کر وہیں بین کرنا شروع ہوجاتی۔ ہائے ڈائن, جان کر لڑکے پیٹ میں مار دیتی ہے تاکہ میرے بیٹے کی نسل نہ چل سکے۔ وہ عقل سے بالاتر الزامات لگایا کرتی تھی اور رضیہ سر جھکائے لعن طعن سہتی رہتی۔

***************

اے میرے اللہ مجھے اس بار بیٹا دے دے میری لاج رکھ دے رضیہ مصلہ بچھائے ہاتھوں کو اٹھائے دعا میں مصروف تھی تھوڑی دور کھیلتی تینوں بچیوں نے بھی ہاتھ اٹھا کر بھائی کی دعا مانگی چھوٹی والی دو برس کی تھی شعور رکھتی تو وہ بھی ہاتھ اٹھا لیتی کہ رضیہ اور بچیوں کو اپنی جان کی امان اسی صورت میں ملنی تھی جب ان کے ہاں لڑکے کی آمد ہوتی بصورت دیگر ماں کے ساتھ باپ اور دادی کا ناروا سلوک ان کے سامنے تھا خیر بخشتی تو دادی ان کو بھی نہ تھی "کرم جلی" کے سوا کسی بچی کو نہ پکارتی اب تو رضیہ کو بھی اپنی بیٹیوں کے رکھے نام بھول چکے تھے

********************

پھر آخر کار شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں رضیہ کو درد ذہ سے تڑپتے لایا گیا ساس وہیں برآمدے کے ایک کونے میں جاء نماز بچھا کر بیٹھ گئی اور رو رو کر اتنی رقت سے دعا مانگنے لگی کہ پاس سے گزرتے لوگ اور نرسیں دل میں اس مریضہ کو خوش قسمت گرداننے لگے جس کی خاطر یہ معمر عورت بے چین ہوکر خدا سے التجائیں کر رہی تھی " اور دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے " مبشر بھی آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہل رہا تھا "رضیہ مبشر کے شوہر آپ ہیں" اتنے میں ایک نرس آپریشن تھیٹر دروازہ کھول کر باہر آئی،جی میں ہوں,مبشر دوڑ کر آیا،،،،کیا ہوا ہے بیٹی یا بیٹا,؟وہ اشتیاق سے پوچھنے لگا جی بیٹا لیکن افسوس آپ کی بیوی کا انتقال ہوگیا ، نرس بتانے لگی مبشر نے تو بیٹا لفظ سن کر ایک نعرہ لگایا، اماں اماں سنتی ہو تیری دعا قبول ہوئی مجھے بیٹا ہوا میری عزت اونچی ہوگئی وہ خوشی سے ناچنے لگا تھا. اماں فورا اٹھ کر بیٹے کے گلے لگ گئی میرا بچہ میرا لعل تیری نسل چل پڑی,ان دونوں کو خوشی سے بے قابو دیکھ کر اطلاع دینے والی نرس کا منہ کھلا رہ گیا،اماں تمہاری بہو دنیا میں نہیں رہی نرس نے اونچی آواز میں بتایا تو رضیہ کی ساس پل بھر کو خاموش ہوئی ،ہک ہا کیسی قسمت لے کر آئی کرمو جلی کہ اپنے بیٹے کا منہ بھی نہ دیکھ سکی،اس نے افسوس سے سر ہلایا اور پھر سے پوتے کی خوشی میں مست ہوگئی. ۔۔۔

کچھ سمج آ ئے تو سوچیے گا ضرور۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔