بینظیر بھٹو نے ’ہارس ٹریڈنگ‘ کو کیسے روکا تھا؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 06, 2022 | 19:34 شام

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما، محترمہ بینظیر بھٹو کی جانب سے ’جنگ‘ اخبار کو دیئے اپنے آخری انٹرویو میں کچھ اہم نظریات پر بات کی تھی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 میں راولپنڈی کے ایک جلسے کے اختتام پر اندھی گولی کا نشانہ بن کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی تھیں، اُن کا جنگ کو خصوصی طور پر دیا گیا یہ آخری انٹرویو 24 اکتوبر 2007ء کو شائع ہوا تھا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت سے متعلق بینظیر بھٹو کا کیا کہنا تھا؟ مفاہمت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بینظیر بھٹو کا کہن
ا تھا کہ ’مجھے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی اخبارات میں یہ بات آتی رہی ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے جنرل پرویز مشرف اور ہمارے درمیان کوئی مفاہمت کروائی ہے، حقیقت یہ نہیں ہے، بین الاقوامی برادری بھی اس پر زور دے رہی تھی اس لیے جنرل پرویز مشرف نے خود پہل کی اور پی پی پی سے مذاکرات شروع کیے۔‘ بینظیر بھٹو کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مزاکرات کی کہانی انہوں نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مزاکرات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پرویز مشرف سے مذاکرات اب نہیں 1999ء سے شروع ہوئے تھے، کبھی بند نہیں ہوئے، مختلف مراحل، مختلف انداز میں ہوتے رہے ہیں اور یہ صرف ہم سے نہیں، تمام سیاسی جماعتوں سے ہوئے ہیں، میاں نواز شریف سے بھی ہوئےجس کے نتیجے میں ہی وہ ملک سے باہر گئے۔ عمران خان سے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں ریفرنڈم میں باوردی صدر کی حمایت کی گئی۔ ایم ایم اے سے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں لیگل فریم ورک آرڈر میں انہوں نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اصولوں کی بنیاد پر مذاکرات کرتے رہے۔‘ پی پی پی اور غیرآئینی، غیرجمہوری معاملات انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے کسی غیرآئینی، غیر جمہوری معاملے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ دنیا نے دیکھا کہ پی پی پی سے مذاکرات کے نتیجے میں ہی اب جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ آئندہ صدارتی حلف اٹھانے سے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑدیں گےاور وردی اتاردیں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری بڑی اصولی فتح ہے۔ بینظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے مذاکرات کا دوسرا مثبت نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی سطح پر مفاہمت ہوگی اور ایک ایسی پارلیمانی کمیٹی تشکیل پائے گی جس میں 50فیصد اپوزیشن ہوگی اور 50فیصد حکومت۔ اس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کسی ممبر پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح ہم نے ہارس ٹریڈنگ یعنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو روکا ہے۔ پہلے 2002ء کے انتخابات کے بعد ہمارے دس ارکان قومی اسمبلی کو نیب کی طرف سے گرفتاری کی دھمکی دے کر الگ گروپ بنایا گیا، اب یہ نہیں ہو سکے گا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ انتخابی یقین دہانی بھی حاصل ہوئی ہے کہ ریٹرننگ آفیسر اپنے پولنگ اسٹیشن کے نتائج کا وہیں اعلان کردے گا۔ اس سے نتائج میں ردوبدل کے امکانات ختم ہوں گے۔ بینظیر بھٹو کی ملک واپسی پر عوام کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا طویل جلا وطنی کاٹنے کے بعد بینظیر بھٹو کا وطن واپسی سے متعلق کہنا تھا کہ ’پاکستان میرا وطن ہے، میری دھرتی ہے، اس لمحے خوشی بھی ہے، غم بھی، ایئر پورٹ سے شارع فیصل تک عوام فتح مند نظر آرہے تھے، 30لاکھ پاکستانی جمع تھے، ہم سب بہت خوش تھے، عوام گا رہے تھے، ہنس رہے تھے، انہیں اُمید تھی کہ مکمل جمہوریت آئے گی، عوامی راج ہوگا، عوام کے مسائل حل ہوں گے، بیروزگاری کاخاتمہ ہوگا، ملک میں امن و سکون آئے گا، خاندان آئے ہوئے تھے، بچے، عورتیں ساتھ تھیں۔‘ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور وہ سیاح رات بینظیر بھٹو کا افسوس ناک حادثے کو یاد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ایک جشن کا سماں تھا، پھر شام ہونے لگی، رات کا اندھیرا ہوا تو ہم نے دیکھا کہ سڑک کی بتیاں بند ہیں، پہلے سے خدشات تھے، اس تاریکی میں تو خود کش حملہ آور آسانی سے نزدیک آسکتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ ہم سب فکر مند تھے کہ اتنا اندھیرا کیوں ہے، پھر وہی ہوا جس کاڈر تھا، خوشی کا دن تباہی کی رات میں بدل گیا، ایک بہت بڑا المیہ ہوگیا، ہر دور میں اپنی کربلا ہوتی ہے، اپنے یزید ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ عوام کے حقوق غصب کریں، عوام خوش نہ ہوں، عوام کے مسائل حل نہ ہوں، عوام ان کے غلام بن کر رہیں لیکن وہ جان لیں کہ عوام سچائی کے راستے پر چل پڑے ہیں، وہ اپنے حقوق حاصل کرکے رہیں گے۔مجھے ان بم دھماکوں سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔‘ وطنِ عزیز، عوام سے محبت اور مضبوط ارادے بینظیر بھٹو کی جانب سے اپنے اس انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’میں عوام کا راستہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی، انہیں ان کی منزل تک، آخری فتح تک لے کر جاؤں گی۔‘