برما کے مسلمانوں کی پکار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 18, 2017 | 08:50 صبح

 لاہور(مہرماہ رپورٹ): پچھلے  دنوں ٹی وی پہ روہنگیا کے مسلمانوں پہ ظلم و ستم دکھایا گیا۔ دل کٹ کر رہ گیا ۔بے آسرا مسلمان، جلتی ہوئی لاشیں، جلتے گھر دیکھ کر دل پھٹنے کے قریب ہوا۔ دل سے آہ نکلی کہ اگر اب بھی قلم نہ اٹھا تو کب اٹھے گا۔ کہاں ہیں اقوام عالم کی انسانیت کی علمبردار تنظیمیں، کیا انہیں مسلمانوں پہ ہوتے یہ مظالم نظر نہیں آتے ؟کیا ان کی انسانیت صرف مغرب تک یا اپنی قوم تک محدود ہے؟ کیا انسانیت کے ٹھیکیداروں کو مسلمان انسان بھی نہیں

لگتے؟ ان پر ظلم و ستم کے وقت ان کے ضمیر کہاں سو جاتے ہیں؟ آج دنیا میں جہاں نظر ڈالیں ہر طرف مسلمان ظلم کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں۔

 انبیاءکی سرزمین عراق ہو یا شام، کشمیر کے سلگتے پہاڑ ہوں یا افغانستان، برما ہو یا کوئی اور ملک ہر طرف مسلمان تکلیف میں ہیں۔ وہ کیا وجہ تھی کہ آج سے 14 سو سال پہلے مسلمانوں نے پوری دنیا پہ حکومت کی۔ مٹھی بھر مسلمان لشکروں کے لشکر پر فتح پا لیتے تھے؟ صرف اتحاد سے اور دین اسلام پر عمل کرنے سے ایسا ممکن ہوا، خدا پر کامل یقین نے انہیں وہ طاقت عطا کی کہ کیسر و کسریٰ کے در و بام انہوں نے ہلا دیئے۔ اگر کوئی مسلمان مضبوط ایمان کے ساتھ اٹھا تو اس نے صلاح الدین ایوبی کی صورت یہودیوں کو شکست دی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم بھی اسی قوم کے فرزند تھے۔ آج وہی قوم مظلوم ہے اور مسلمانوں کے سربراہ اپنے اپنے مفادات کو لے کر آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کب انہیں ہوش آئے گا کب یہ مسلمانوں پہ ہوتے ظلم پہ موثرآواز اٹھائیں گے؟ کیا مسلم خون اتنا ارزاں ہے کہ اسے ناحق بہا دیا جائے یا مسلمان اتنا کمزور ہے اسے جلا دیا جائے؟۔

اب نہیں تو کب مسلمان جاگیں گے؟ کب اپنے اختلافات بھلا کر کمزوروں کی آواز بنیں گے؟ برما کے مسلمانوں پہ ہوتے ظلم پہ کسی مسلمان ملک نے سوائے ترکی کے عملی آواز نہیں اٹھائی، کیا مسلم اقوام بے حس ہو چکی ہے۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم سے تشبیہہ نہیں دی کہ جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور اپنے دین کے احکامات کو بھلا دیا ہے۔ یہ سب مشکلات اسلام سے دوری کی وجہ سے درپیش ہیں، ہمیں اپنی عملی زندگی میں بھی اسلام کی تعلیمات کونافذ کرنا ہو گا۔ اس میں ہماری بقاءہے۔ مسلمانوں کا لہو چیخ چیخ کر ہمیں انہی مدد کے لئے پکار رہا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آواز نہ اٹھائی تو قیامت والے دن ہم اپنے اللہ اور اپنے رسول اللہ ﷺکو کیا جواب دیں گے؟ اگر انہوں نے پوچھ لیا کہ میرے بندے جب تمہیں آواز دے رہے تھے تو تم کہاں تھے؟ تم تو ایٹمی طاقت تھے تم نے کیوں آواز نہیں اٹھائی؟ تمہارے پاس تو قلم کی طاقت تھی تو تمہارا قلم کیوں خاموش رہا تو ہم کیا کہیں گے ،کونسا بہانہ گھڑیں گے، خدارا میری ارباب اختیار سے التجا ہے جاگ جایئے اپنے بھائیوں کی مدد کیجئے۔