ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دیے جانے سے قبل بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو سے انکی آخری ملاقات کا مکمل احوال

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 04, 2017 | 08:17 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) نامور صحافی ادیب جاودانی  اپنے تازہ ترین مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیئے جانے کی خبر انہیں سب سے پہلے کس نے سنائی، یہ خبر سن کر انہوں نے کس ردعمل کا اظہار کیا، بیگم نصرت بھٹو اور آنسہ بے نظیر نے ان سے آخری ملاقات کب کی، کس طرح کی، کیا کیا باتیں ہوئیں، بھٹو مرحوم نے اپنی آخری رات کس طرح گزاری وہ اپنی کال کوٹھڑی سے تختہ دار تک کیسے پہنچے؟ اس سلسلے میں آج تک بہت کچھ کہا جا چکا ہے، بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر شاید پھر

بھی مکمل تفصیل آج تک کسی نے نہیں لکھی ہے۔

 4 اپریل 8 بجے شام کو فوجی حکام کی طرف سے سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد کو حتمی طور پر ہدایت کر دی گئی کہ وہ بھٹو کو الصبح دو بجے پھانسی پر لٹکا دیئے جانے کی اطلاع دے دے اور اگر وہ وصیت لکھنا چاہتے ہوں تو اس کے لکھنے کی ہدایت کر دے، یار محمد خان نے اپنے دو ماتحت افسروں کاظم بلوچ اور مجید قریشی کو یہ ناگوار فریضہ ادا کرنے کیلئے بھیج دیا۔ مجید قریشی نے سوگوار لہجے میں کہا۔

سر مجھے افسوس ہے آپ کی زندگی کا آخر وقت آن پہنچا ہے“۔ بھٹو نے بے یقینی کے انداز میں مجید قریشی کی طرف دیکھا، چند لمحے ان کے چہرے پر پریشانی رہی۔ ”What are you saing“ انہوں نے نہایت نحیف لہجے میں کہا۔

مجید قریشی نے جواباً کہا۔ ”I am very Sorry sir, the news is correct اس مرحلے پر بھٹو چند لمحے خاموش رہے پھر مجید قریشی سے سوال کیا۔ ”کیا بیگم نصرت کی ضیاءالحق کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی؟

نہیں جناب، براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا“ مجید قریشی کے ان الفاظ پر بھٹو چند لمحے پژمردہ سے رہے، پھر بولے ”Are you Sure, They will do, that"?“ مجھے یہ کہا گیا ہے کہ میں آپ کو وصیت لکھنے کیلئے کاغذ قلم پہنچا دوں“ مجید قریشی نے کاغذ اور قلم بھٹو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور خود انہیں خدا حافظ کہہ کر کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔ بھٹو گھنٹہ بھر کاغذوں پر کچھ لکھتے رہے، پھر انہوں نے یہ سب کاغذ پھاڑ ڈالے، اور لیٹ گئے۔

ایک بجے کے قریب دوبارہ مجید قریشی کو بھٹو کے پاس بھیجا گیا۔ مجید قریشی نے دیکھا بھٹو بالکل بے حس پڑے تھے ، مجید قریشی گھبرا کر کوٹھڑی سے باہر آ گئے اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو صورت حال سے آگاہ کیا، جیل حکام شدید پریشان ہو گئے۔

مجید قریشی کی پریشان کن اطلاع پر سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول، ڈاکٹر اصغر علی شاہ سمیت بھٹو کی کوٹھڑی کی طرف لپکے، مجید قریشی بدستور ان کے آگے آگے تھا، ان کے پیچھے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چودھری نذیر احمد اور کرنل رفیع عالم بھی بھٹو کے سیل کی طرف دوڑ پڑے۔ ان سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، ان سب نے دیکھا بھٹو گہری اور پرسکون نیند سو رہے تھے، بلب کی روشنی میں ان کا پروقار چہرہ دمک رہا تھا، ڈاکٹر اصغر علی شاہ نے سوتے میں ان کی نبض دیکھی اور باقی لوگوں کو سر کے اشارے سے ان کے زندہ سلامت ہونے کی نوید دے دی، یار محمد خان سپرنٹنڈنٹ جیل نے مجید قریشی کو اشارہ کر کے کہا، ”صاحب کو اٹھا دو“ مجید قریشی نے بھٹو مرحوم کو آہستہ آہستہ جھنجھوڑا، نیند سے بیدار ہو کر بھٹو اٹھ کر بیٹھ گئے، مجید قریشی نے انہیں کہا کہ وہ اٹھ کر نہا لیں، ان کے آخری غسل کیلئے پانی تیار ہے، بھٹو چند لمحے خاموش رہے پھر بولے، میں پاک ہوں نہانے کی ضرورت نہیں ہے“۔

انہوں نے بھٹو کو موت کے وارنٹ کی عبارت پڑھ کر سنائی اور پوچھا سر آپ پھانسی گھاٹ تک چل کر جانا پسند کریں گے یا آپ کی سہولت کیلئے اسٹریچر منگوا لیا جائے، ”مجھے وصیت نہیں لکھنے دیتے تو پھر میں آپ لوگوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتا“ یہ کہہ کر بھٹو دوبارہ لیٹ گئے۔ کرنل رفیع عالم نے برہم ہو کر کہا سٹریچر منگواﺅ، جلدی کرو، چار سپاہی سٹریچر لے کر آ گئے اور بھٹو کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگا دی اور ایک فوجی افسر نے آگے بڑھ کر بھٹو کو اٹھا کر سٹریچر پر بٹھا دیا اور سپاہیوں نے سٹریچر اٹھا لی۔ بھٹو نے ایک حسرت بھری نظر اپنی کال کوٹھڑی کی دیواروں پر ڈالی، جیسے ان دیواروں کو خدا حافظ کہا ہو۔ یہ چھوٹا سا قافلہ تقریباً پونے دو بجے بھٹو کی آخری قیام گاہ میں سے اس طرح نکلا کہ تمام بڑے افسر آگے آگے تھے، جیل کے چھوٹے افسر سٹریچر کے ساتھ کچھ فاصلے پر چل رہے تھے۔بھٹو انتہائی مدھم لہجے میں بولے۔

I am sorry for my county, she will be left alone without its leader.

انہوں نے یہ جملہ چونکہ بہت ہی مدھم لہجے میں کہا تھا، جیل اور فوج کے جن افسران نے یہ جملہ فاصلے سے سنا تھا وہ یہ سمجھے کہ بھٹو نے اپنی بیوی کیلئے یہ کا ہے کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کیا وہ خود پھانسی کا چبوترا چڑھ سکیں گے، وہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چبوترے کے زینے چڑھ گئے۔ انہوں نے آخری چبوترے پر پہنچ کر اپنا پاﺅں زور سے چبوترے پر مارا جیسے یہ دیکھا چاہتے ہوں کہ یہ واقعی تختہ ہے یا کسی ڈرامے کا حصہ۔

تارا مسیح نے ان کے چہرے پر نقاب چڑھایا گلے میں رسی ڈال کر گرہ لگا دی۔

ابھی پھانسی کا لیور نہیں کھینچا گیا تھا کہ انہوں نے تقریباً چیخنے کے انداز میں کہا ”Finish“ یہ آخری الفاظ تھے جو ان کے منہ سے نکلے تھے۔ اس وقت دو بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے اشارہ کیا اور پھانسی کا لیور گرا دیا گیا تختے نیچے گر گئے اور پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر 11 فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہو گیا۔یاد رہے ایک ملاقات میں تارا مسیح نے راقم کو بتا یا اتنے کو پھانسی دینے کا معاوضہ اسے صرف دس روپے ملا۔

راقم نے اپریل 84ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کا جو انٹرویو اپنے ماہنامہ ”مون ڈائجسٹ“ لاہور میں شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو میں مولوی مشتاق حسین نے کہا تھا کہ یحییٰ بختیار نے بھٹو کا کیس صحیح طور پر نہیں لڑا تھا اگر میں بھٹو کا وکیل ہوتا تو بھٹو بری ہو سکتے تھے۔ اس پر یحییٰ بختیار نے میرے خلاف کوئٹہ کی عدالتوں میں دو مقدمے دائر کر دیئے اور میں ان مقدمات کی پیروی کیلئے دس سال تک کوئٹہ کی عدالتوں میں جاتا رہا۔ یحییٰ بختیار نے میرے خلاف جوہر جامنے کا دعویٰ کیا تھا وہ جیت گیا تھا۔ عدالت نے مجھے ہرجانہ بمع خرچہ ادا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے تھے۔ لیکن اسی دوران روزنامہ ”نوائے وقت“ کے ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے میری یحییٰ بختیار سے صلح کروا کر میری جان چھڑا دی۔ میں ان کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھلا سکتا۔