بلبیر سنگھ سے کلبھوشن تک،

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 13, 2017 | 08:11 صبح

موجودہ دور میں ہی نہیں ماضی میں بھی بھارتی جاسوس پکڑے جاتے رہے مگر ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جاتا رہا جو بھارتی جاسوسوں اور دہشت گردوں کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بنتا رہا ہے‘ مثلاً 1975ء میں بھارتی ایجنٹ رویندرا کرشک اپنا جعلی نام نبی احمد شاکر رکھ کر پاکستان آیا‘ یہاں شادی کی‘ بچے پیدا کیے۔ 1983ء میں پکڑا گیا‘ فوجی عدالت نے سزائے موت دی‘ سپریم کورٹ نے عمر قید میں بدل دیا‘ 99ء میں ٹی بی کا شکار ہوکر ملتان جیل میں مر گیا۔ سرجیت سنگھ 1980ء میں گرفتار

ہوا‘ فوجی عدالت سے سزائے موت ہوئی‘ صدر غلام اسحاق نے بیرونی دبائو پر عمرقید میں بدل دیا‘ 30سال بعد بھارت واپس چلا گیا۔ کشمیر سنگھ 1975ء میں گرفتار ہوا، فوجی عدالت نے سزائے موت دی‘ صدر پرویز مشرف نے بیرونی دبائو پر سزا ختم کر دی اور بھارت واپس چلا گیا۔ سربجیت سنگھ لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرانے پر گرفتار ہوا، کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ساتھی قیدیوں سے جھگڑے میں زخمی ہوکر ہلاک ہوگیا۔ پیشہ ور فوٹوگرافر رام راج 2004ء میں گرفتار ہوا‘ 6سال قید بھگت کر واپس چلا گیا ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کا گائیڈ رہا۔ بلویر سنگھ 1971ء میں گرفتار ہوا‘ 12سال قید کے بعد واپس بھارت چلا گیا اور مدد نہ کرنے پر ’’را‘‘ کے خلاف بھارتی عدالت میں مقدمہ کیا۔ عدالت نے اسے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ست پال 1999ء میں گرفتار ہوا‘ ایک سال قید کے دوران فوت ہوگیا‘ میت بھارت بھیج دی گئی۔ رام پرکاش جس نے پاکستان بھارت سرحد 75 بار عبور کرنے کا اعتراف کیا‘ 1994ء میں پاکستان میں داخل ہوا‘ 97ء میں واپس جاتے ہوئے گرفتار ہوا‘ 10سال قید کاٹ کر 2008ء میں واپس بھارت چلا گیا۔ اگر ان میں سے 1971ء میں آنے والے جاسوس دہشتگرد بلویر سنگھ کو پھانسی دے دی جاتی تو آئندہ شاید بھارتی جاسوسوں کو یوں آنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس کے برعکس بھارت کا طرز عمل یہ رہا کہ رشتہ داروں سے ملنے کیلئے جانے والے عام پاکستانیوں پر جاسوسی کا الزام لگا کر گرفتار کرکے سزائیں دیتا رہا ہے۔ کئی ایک کو خود بھارتی عدالت نے بے گناہ قرار دیا‘ اس کے باوجود وہ جیلوں میں سڑتے رہے۔

بھارتی آج واویلا کر رہے ہیں، کل تک کلبھوشن کو بھارتی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ بھارت کے سابق لیفٹیننٹ جنرل راج قدیان نے کہا کہ کلبھوشن کو جرمن سفیر کے مطابق طالبان نے ایران سے اغوا کرکے پاکستان کو بیچا ہے۔ بھارتی جنرل تو ایسی باتیں کرے گا مگر ڈاکٹر کنٹر ملائیک سابق سفیر ہے‘ اس نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئر کراچی میں یہ بات کی‘ دوسری بات یہ کی کہ ’’اقتصادی راہداری سے پاکستان کیلئے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا‘‘ مگر پاکستان کے کسی حکومتی عہدیدار بشمول وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ کبھی ادارے کی سربراہ سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر معصومہ حسن سے پوچھتے کہ اس موقع پر ڈاکٹر کنٹر ملائیک سے ایسا خطاب کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اب اسے کیاکہیے آصف زرداری کا ترجمان فرحت اللہ بابر کہتا ہے کلبھوشن کو پھانسی فوج کا فیصلہ ہے۔ موم بتی گروپ کی جانب سے سوال اٹھایا گیا ’’مقدمہ سول عدالت میں چلنا چاہیے تھا‘‘ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ’’پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا‘‘ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پھسپھسے انداز میں کہا فیصلہ قانون کے مطابق ہوا ہے۔ انہوں نے بھارت کے وزیر داخلہ‘ وزیر خارجہ اور بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی پاکستان مخالف ہرزہ سرائی کا بھرپور جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔ اس طرز عمل سے بھارت کے اس واویلا کو تقویت ملے گی جو وہ کلبھوشن کو بچانے کیلئے عالمی سطح پر کرے گا۔ بھارتی کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ کلبھوشن کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ یاد رکھیئے اجمل قصاب پاکستان کو سفارتی رسائی دی تھی، کیا انہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس نذر آتش کرنے والے کرنل پردہت سے تفتیش کے لئے پاکستانی ٹیم کو رسائی دی تھی؟

بہرحال کلبھوشن کی دہشت گردی ثابت ہوچکی‘ حکومت نے اگر فوجی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو یہ بھارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا۔ یہ بھارتی جاسوسوں کیلئے آسودگی بھرا پیغام ہوگا ’’آئو اس ملک میں دہشت گردی کرو، کچھ عرصہ جیل کاٹو اور آرام سے اپنے ملک واپس چلے جائو۔‘‘ یہ وزیراعظم نوازشریف کی حب الوطنی‘ جرأت‘ بہادری کا آخری امتحان بھی ہے۔