محبت کمال کرتی ہے۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 02, 2017 | 17:55 شام

جانے سے پہلے چائے تو بنا کر دے سکتی ہو مجھے __؟؟
کرم نے کہا۔
وہ چند لمحے کھڑی شش و پنج میں رہی۔ پھر اس نے بالآخر چائے بنانا شروع کر دی۔
''میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں ___!!!
چائے کا کپ کرم کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے خفگی سے کہا۔
''سلائس پر مکھن لگا دو۔'' کرم نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
''میں اس کام کے لیے یہاں نہیں آئی۔'' زینی نے سلائس اورچھڑی اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کی خفگی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس نے سلائس اس کے سا

منے پلیٹ میں رکھ دیا۔
 ''اور انڈہ بھی چھیل دو۔'' اس نے بے حد اطمینان سے اگلا حکم دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے کوئی ناشتہ کروا رہا تھا۔ زینی نے اس بار کچھ نہیں کہا اس نے خاموشی سے انڈاہ اٹھا کر اسے چھیلنا شروع کر دیا۔
کرم نے چھڑی کے ساتھ سلائس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ ایک ٹکڑا اٹھا کر اس نے اس پلیٹ میں رکھ دیا جو زینی کی کرسی کے سامنے پڑی تھی۔
''یہ تمہارے لیے_____ تمہارا حصہ___!!!!  
اتنا کہہ کر وہ اپنا حصہ کھانے لگا ۔
 زینی انڈہ چھیلتے چھیلتے رک گئی۔ سلائس کے اس آدھے حصے کو دیکھتے ہوئے اسے شیراز یاد آیا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی طرح اسے کھلایا کرتی تھی کبھی اپنے ہاتھ کی پکی چیزیں کبھی اس کی لائی ہوئی چیزیں… لیکن اسے یاد نہیں تھا کہ شیراز نے کبھی اپنے حصے میں سے کبھی اس کے لیے کوئی حصہ نکالا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھی صرف اسے کھاتا دیکھتی تھی اور صرف اسی بات پر مسرور ہوتی رہتی تھی کہ وہ پیٹ بھر کر کھا رہا تھا… زندگی میں آج تک صرف اس کا باپ تھا جس نے اپنے حصے کا نوالہ اسے دیا تھا… اور آج اس شخص نے دیا تھا جو کرسی پر بیٹھا اب اپنے حصے کا سلائس کھا رہا تھا… آنسوؤں نے پھر کسی بند کو توڑا تھا۔ وہ آہستگی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں پکڑا چھلا ہوا انڈہ اس نے اپنی پلیٹ میں رکھا پھر اپنےچھڑی کے ساتھ اس کے دو ٹکڑے کر دیے… پانی ہر منظر کو دھندلا کر رہا تھا۔ اس نے ایک ٹکڑا بڑی سہولت کے ساتھ کرم کی پلیٹ میں رکھا اور اس پر نمک اور کالی مرچ چھڑکنے لگی یوں جیسے وہ ہر روز روٹین میں یہی سب کرتی ہو۔ کرم ہاتھ بڑھا کر اس کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرنے لگا یوں جیسے وہ ہر روز روٹین میں یہی سب کرتا ہو۔ زینی نے اس بار اس کو نہیں روکا تھا اس کی شرٹ کی آستین کہنیوں تک مڑی ہوئی تھیں… اس کے گلے کے اوپر والے دونوں بٹن کھلے ہوئے تھے وہ بد نما داغ جو وہ پوری دنیا سے چھپاتا پھرتا تھا بہت عرصے سے اس کے دائیں ہاتھ کرسی پر بیٹھی لڑکی دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے برص کو اس سے نہیں چھپاتا تھا… کیونکہ اس نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے کبھی تحقیر یا گھن نہیں د یکھی تھی۔

 ڈائینگ روم میں بیٹھے وہ دونوں ایک عجیب ''بولتی خاموشی'' کے سحر میں تھے۔ وہ ''کہہ'' رہے تھے جو نہیں کہہ پا رہے تھے وہ ''سن'' رہے تھے جو سننا چاہتے تھے۔ وہ ''بوجھ'' رہے تھے جو ہمیشہ سے جانتے تھے۔ وہ ''کھوج'' رہے تھے جو ہمیشہ سے اوجھل تھا۔ محبت ''کمال'' کرتی ہے محبت ''کمال'' کر رہی تھی ______!!!!!

 ماخذ:من و سلوی' از عمیرہ احمد

انتخاب:بنتِ ہوا 

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔