عوام،حکومت اور اپوزیشن۔۔وہی ہنگامہ ۔۔۔۔وہی فسانہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اظہر تھراج

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 15, 2016 | 20:17 شام

حکمران جماعت کے نمائندے، کارندے، سازندے سب چیخ چیخ کر اپنی گڈ گورننس کا پرچار کررہے ہوتے ہیں۔ ٹی وی آن کرو، اخبارات کھنگالو یا سوشل میڈیا پر جاﺅ، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملک میں امن قائم کردیا، اب ہرطرف محبت کے پھول کھلتے ہیں، کہیں سے کوئی گولی، دھماکے کی آواز نہیں آتی، ہم نے تیل سستا کر دیا۔ کرائے نچلی سطح پر لے

آئے ہیں، عوام کو ریلیف دینے کیلئے آلو، بینگن، گاجر، مولی، چینی، آٹا سب کچھ سستا کردیا، روٹی دودھ بھی عوام کی پہنچ میں آگئے ہیں،بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردی ہے،تمام ملازمین خوشحال ہیں،ڈاکٹرز اور ادویات مریضوں کی پہنچ میں ہیں وہ جیسے چاہیں علاج کروائیں، کہنے کی حد تک تو سب اچھا ہے!!
ٹی وی پر یہ تقریر سن کر بازار میں پہنچا تو وہی پرانی قیمتیں، وہی عوام کا رونا، دھونا، جب پٹرول 112 روپے لیٹر تھا تب بھی روٹی 6 روپے کی تھی آج 66 روپے لٹر ہے تو وہی روٹی 6 روپے کی ہے کل پراٹھا 15 روپے کا تھا آج 30 روپے کا ملتا ہے، دودھ کی قیمت پہلے سے بھی زیادہ یعنی80سے 90روپے لیٹر، فروٹ خریدنے جائیں توبس دیکھ کر واپس آجائیں خریدیں نہیں، سبزی کا بھی وہی حال چاہے وہ کسی خوانچہ فروش سے لی جائے یا شیشے کی بنی دکان سے۔
سفر کریں تو مسافروں اور بسوں، ویگنوں کے ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں کے درمیان ”جنگ “چھڑی ہوتی ہے، حکومت نے کرائے نامے تو دے دیئے لیکن انہیں لاگو کون کروائے گا انتظامیہ بھی لاعلم اور عوام بھی لاعلم نظر آتے ہیں،ٹرانسپورٹرز مرضی کا کرایہ وصول کرتے ہیں کوئی جھگڑا کرے تو بیچ چوراہے اپنی عزت گنوا بیٹھتا ہے،یہ بے لگام ٹرانسپورٹرز فرماتے ہیں”پیسے لگائے ہیں کرایہ بھی مرضی کا لیں گے“جس نے بیٹھنا ہے بیٹھے ورنہ اتر جائے۔
ہسپتال میں پہنچا تو مریض تھے ڈاکٹرز نہیں،کوئی بنچ پہ لیٹا تو کوئی زمین پر فرش راہ بنا ہوا تھا،کھوج لگانے پر پتا چلا کہ میرے ملک کے مسیحا اپنے پیٹ کیلئے سٹرک پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں،جب وہاں پہنچا تو ففٹی فٹی کی صورتحال تھی،نومولود مسیحا آدھے ڈاکٹر آدھے سیاستدان نظر آرہے تھے یعنی آدھے تیتر،آدھے بٹیر۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جوں ہی ان کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو ایہ ینگ ڈاکٹرزا اپنی نجی دکانوں میں جا دبکے اور مریضوں کارش لگ گیا،یہ ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں ،حکومت پر دباﺅ ڈالنے ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنی دکانداری بھی چمکا رہے ہیں،حکومت اگر سنجیدہ ہے تو ان مولودمسیحاﺅں کے خودساختہ مسائل کو حل کرے نہیں تو پنجاب پولیس کو ان کا قبلہ درست کرنے کا حکم جاری کرے تاکہ مریض بے بسی کی موت مرنے سے بچ سکیں۔
67 برس ہو گئے پاکستان بنے، اس عمر میں تو بچے نہیں ملک بھی بالغ ہوجاتے ہیں، ہم ہیں کہ وہی روش، وہی طرز حکمرانی۔ کبھی کراچی میں امن و امان کا مسئلہ، آپریشن کا آغاز، دھرنوں کا پھوٹ پڑنا، پٹرول کی عدم دستیابی، پٹرول بحران کے ذمہ داروں کا عدم تعین، پھر ملک بھر کا اندھیروں میں ڈوب جانا، پھر تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کا پٹرول پمپوں سے غائب ہوجانا۔کسانوں ،مزدوروں کا روز روز کارونا۔
کتنے ظلم کی بات ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہمارے بچے آج بھی گندگی کے ڈھیر سے روزی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہاں 1 دن کا بچہ ہو یا 99 سال کا بوڑھا ہر کوئی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہے۔ حکومت عوام کے نام پر انتہائی کڑی شرائط پر قرض حاصل کرتی ہے اور اس قرض سے جشن مناتی ہے۔ نوجوانواں کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن روز گار نہیں، ہسپتال ہیں مگر سہولیات نہیں، تعلیمی ادارے ہیں مگر تعلیم نہیں، اسلام آباد کی ظالم سرکار یہ جان لیں کہ جس دن غریب اور مفلوک الحال عوام متحد ہوگئے وہ محلات اور بنگلوں میں رہنے والوں کے اقتدار کا آخری دن ہوگا۔
جب تھک ہار کے گھر پہنچا تو اسی ٹی وی کوآن کیا جس پر وزراءاپنی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے،اب صورتحال مختلف تھی ،قومی اسمبلی کی براہ راست کارروائی میں ارکان ایسے لڑرہے تھے جیسے گھر میں ساس اور بہو کی جنگ ہوتی ہے،میلے میں جیسے دو مرغوں کا دنگل ہوتا ہے،یہ خاک ملک کے مسائل حل کریں گے جو ابھی تک بازاری زبان سے آگے نہیں بڑھ سکے یہی سوچ ٹی وی بند کیا اور سوگیا کہ صبح نیا پاکستان ملے گا ،جب اٹھا تو وہی ہنگامہ ۔۔۔۔وہی فسانہ۔