چڑیا کا گھونسلا اور لبرل ازم کا بخار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 11, 2017 | 15:57 شام

تحریر: امجد حسین بخاری

میرا گھر جنگل کے قریب واقع ہے۔ اکثر اوقات جنگل میں جانا رہتا تھا، بھانت بھانت کی آوازیں، چڑیا، کوئل ، طوطا اور مینا کے نغمے، کوؤں کی کائیں کائیں، چکور، دان گیر اور بن ککڑ کی آوازیں جنگل کی پر آسیب خاموشی میں رس گھول رہی ہوتی ہیں۔ بچپن میں ان پرندوں کے گھونسلے اور آشیانے دیکھنے کا جنون تھا، ان کے گھونسلوں میں سے بچے چرانا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر اب ان گھونسلوں کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنے ناپائیدار اور کچی ٹہنیوں پر محض تنکوں سے قائم یہ گھونسلے دنیا کی بے

ثباتی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی میں گیا تو اتفاق سے معاشرتی علوم اور میڈیا کا علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ دنیا بھر کے نظام معاشرت پڑھ ڈالے، کمیونزم، کیپٹل ازم ، یونان کا نظام ، ہندوستان کا نظام ۔ صنعت کاروں اور زمینداروں کا نظام۔ میں نے یہ بھی پڑھا کہ کیسے زمیندار اور جاگیردار افراد کو دبا کر رکھتے اور اب صنعت کار کس طرح لوگوں کو ذہنی اور اخلاقی غلام بنا رہے ہیں۔

اب ہمارے گونگے صدر صاحب اور ایوان صدر میں منڈلاتے بھنھوروں کے بیانات کی بات ہوجائے۔ ہمارے صدر صاحب ایک ہی بار بولے اور فرمانے لگے کہ پاکستان کا مقدر لبرل پاکستان ہے۔  ان کے بیان کے بعد اچانک غیر محسوس انداز میں تقاریب ہونے لگیں ، سیمنیارز منعقد کئے جانے لگے۔ سوشل میڈیا کے مردہ پیجز میں جان آنے لگی۔ مذہب سے نفرت آمیز سلوک ، اسلام اور قرآن کے خلاف بیانات۔ مخلوط محافل، شراب و شباب کے چمکتے رنگوں کی بہاریں۔ یہ سب محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں تھا، سرمایہ دارانہ نظام بھی لبرل ازم کے نام پر سامنے آگیا۔ ایک موبائل کا اشتہارٹی وی چینلز پر آیا جس میں باپ کی اجازت کے بغیر بیٹی کرکٹ میں کامیاب ہوتی ہے۔ ایک شیمپو کا اشتہار چلا کہ “لڑکیاں اب رات میں بھی شائن کریں گی۔” ایک برانڈ کا اشتہار آیا جس میں بیچ بازار میں لڑکیوں کو نچوا کر یہ ثابت کرایا گیا کہ اب ہم سب کچھ کر سکتی ہیں۔پھر مومنہ مستحسن کے گانے آفرین آفرین کی ملک بھر میں آفرین آفرین کرائی گئی۔ الغرض ان گنت کہانیاں اور سکرپٹ تحریر کئے گئے جس کے اثرات بہت جلد دیکھنے کو ملے۔ ملک بھر میں لبرل ازم کا نعرہ بلند ہونا شروع ہوگیا۔ اس نعرے کی آڑ میں سوشل ازم اور کمیونزم کو فروغ بھی دیا گیا۔ کئی فیس بک آئی ڈیز نے اپنے ناموں کے ساتھ “کامریڈ” کے لاحقے کا اضافہ کرلیا۔ دوسری جانب تواتر کے ساتھ مولویوں کے اخلاق و کردار کی دھجیاں بکھیری جانے لگیں۔ کبھی یہ رنگ الیاس گھمن ، مفتی قوی، مولانا فضل الرحمان اور ان گنت افراد کی کردار کشی کر کے دکھایا گیا اور کبھی دوسری شادی اور چلغوزے کے نام پر دھماچوکڑی مچائی گئی۔اگر آپ ٹی چینلز کے خبر نامے اور اشتہارات غور سے دیکھیں تو انداز ہ ہو کہ ہر خبر ، ہر تبصرہ اور ہر اشہتار ایک مخصوص فکر کی نمائندگی کر رہا ہے۔

اب آتے ہیں اس کے اثرات کی جانب ، میڈیا کی مہمات کےبعد سب سے پہلا واقعہ کراچی کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں پیش آیا جس کے دو بچوں نے آپس میں شادی نہ کرانے کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ قندیل بلوچ اسی میڈیا وار کی وجہ سے قتل ہوئی۔ نائلہ رند کا قاتل بھی یہی نظام ہے ، ایلیٹ کلاس کا ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام بھی اسی سسٹم کا شاخسانہ ہے۔یہی نظام نفرتوں کو فروغ دے رہا ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے کچرے کے ڈبوں سے نو مولود بچوں کے مردہ لاشے برآمد ہو رہے ہیں۔ اسی نظام نے عورت کی زندگی کو کچل کر رکھ دیا ہے، یہ نظام پاکستان میں لاگو کرکے جہاں مادر پدر آزاد نسل کو پروان چڑھایا جا رہا ہے وہیں معاشرتی نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے۔اسی نظام کی بدولت بڑے گھروں کی لڑکیاں ایک چائے والے کے پیچھے مر مٹ رہی تھیں ۔ “چائے والا” ایک استعارہ ہے اس نظام کا جس میں باپ اور بیٹی رشتوں کی قدروں کو کھو رہے ہیں ۔ ماں اور بیٹا اسی نظام کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ چائےوالا محض میڈیا کا ایک چھوڑا گیا شوشہ نہیں بلکہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ ایلیٹ کلاس کی خواتین اس میڈیا اور نظام کی وجہ سے کس ہیجانی کیفیت سے گزر رہی ہیں۔ مغرب کے لبرل ازم نے جہاں اس کے معاشرتی نظام کا جنازہ نکالا وہیں اب مغرب اپنے نظام کی بہتری کے لئے کوشاں ہے اور ہم اس پٹے ہوا نظام کو اپنے ہاں رائج کر رہے ہیں۔ مغرب کے لبرل ازم نے جہاں اس کے معاشرتی نظام کا جنازہ نکالا وہیں اب مغرب اپنے نظام کی بہتری کے لئے کوشاں ہے اور ہم اس پٹے ہوئے نظام کو اپنے ہاں رائج کر رہے ہیں ، نازک شاخوں پر آشیانے تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ” شاخ نازک پربننے والا آشیانہ ہمیشہ ناپائدار ہوتا ہے۔”

لکھاری سپیریئر یونیورسٹی میں ایم فل جرنلزم کے طالبعلم ہیں۔ نوجوانوں کے میگزین ہم قدم کے مدیر رہےاور بچپن سے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔آج کل قومی اخبارات میں ’’جلتی کتابیں‘‘ کے نام سے تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر لکھ رہے ہیں۔