ایک ہوں مسلم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 10, 2017 | 12:54 شام

تحریر: رائے صابر حسین
کتابِ ہدایت کہتی ہے:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔۔۔۔
جنگ عظیم اول کے دوران سپرپاور برطانیہ نے تین براعظموں پر پھیلی خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے قومیتوں کی بنیاد پر ڈربوں نما ریاستیں تخلیق کیں تو صرف برصغیر کے مسلمانوں نے ہی احتجاج کیا اور اتحاد امت کی بات کی

۔ شاعر مشرق،مفکر اسلام، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کہہ اٹھے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے 
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
اِسی عرصہ میں عالم اسلام میں دو بڑی اسلامی تحریکات کا آغاز ہوا۔ امام حسن البناءشہیدنے 1928ءمیں مصر میں "اخوان المسلمون" کی بنیاد رکھی اور اِدھر ہندوستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 1941ءمیں "جماعت اسلامی" کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کو مجتمع ہونے کی دعوت دی۔ دونوں تحریکوں کا بنیادی مقصد دھرتی پر حکومت الہٰیہ کا قیام تھا اور ا±س کے تحت اتحاد امت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا بھی۔
دونوں تحریکوں سے کئی بغل بچہ جماعتیں وجود میں آئیں مگر اتحاد امت کی خواہش تشنہ رہی، تاہم عالم اسلام میں موتمر عالم اسلامی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن قائم کر لی گئی اور اسلامی سربراہی کانفرنسز کا انعقاد شروع ہو گیا۔ 
افغانستان میں سابق سوویت یونین کیخلاف جہاد کے دوران دنیا بھر سے مسلمان جہادی پاکستان اور افغانستان میں جمع ہو گئے، اِنہی میں سے القاعدہ اور طالبان نے ظہور کیا۔ القاعدہ کی صفوں میں سے ہی ابو مصعب الزرقاوی نکلا اور ا±س کی موت کے بعد ابوبکر البغدادی نے "دولت اسلامیہ عراق و شام" یعنی داعش کی بنیاد رکھی۔
جیسے القاعدہ اور طالبان کی بنیاد امریکہ نے رکھی، ویسے ہی انقلاب ایران کی راہ بھی امریکیوں نے ہی ہموار کی۔ خمینی صاحب انقلاب کے فوراً بعد امریکہ کے مخالف ہو گئے تو امریکہ نے عراق کے صدام حسین کو ہلہ شیری دے کر ایران پر حملہ کی ترغیب دی جس پر دونوں ممالک کے درمیان آٹھ سال خوفناک جنگ لڑی گئی۔ خمینی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے القاعدہ کے اسامہ اور طالبان کے سربراہ ملا عمر بھی امریکہ سے کیے گئے وعدوں سے مکر گئے۔ نائن الیون تو ایک جعلی کہانی تھی، جسے بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا، پھر عراق کا رخ کیا گیا اور اب شام کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔
عراق میں داعش کا قیام عمل میں لایا گیا تو سعودی عرب اور ایران دونوں نے ہر لحاظ سے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ جب داعش نے سعودی عرب پر حملے شروع کیے تو اسے ہوش آیا۔ دوسری طرف ایران افغانستان کے بعد عراق میں اپنی من پسند حکومت قائم کرانے میں کامیاب ہوا تو اس نے یمن کا رخ کیا۔ یمن میں بغاوت شروع ہو گئی اور منتخب صدر کو بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی۔ دوسری طرف شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے القاعدہ کی ذیلی شاخ النصرہ فرنٹ اور داعش سمیت درجن بھر تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔
سعودی عرب نے بظاہر داعش سمیت تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کیلئے پندرہ دسمبر 2015کو "التحائف الاسلامی العسکری لمحاربتہ الارھاب" یعنی اسلامک ملٹری الائنس کے نام سے سنی مسلم ممالک کا ایک فوجی اتحاد قائم کیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ رہ جانے والے ممالک نے بھی شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاہم ایران،عراق،شام اور یمن اِس میں شامل نہیں۔ اِس کی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ عرب اور ایران کے درمیان صدیوں سے جنگ جاری ہے، امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓکے دور میں ایران فتح تو ہو گیا مگر انہیں یہ کہنا بھی پڑا:کاش ہمارے اور ایران کے درمیان آگ کا سمندر ہوتا۔امیرالمومنین کو کسی اور نے نہیں بلکہ ایک ایرانی مجوسی نے ہی شہید کیا تھا۔
دوسری یہ کہ نائن الیون کے بعد ایران نے توسیع پسندانہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا اور اپنے اڑوس پڑوس میں بالواسطہ حکومتوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یمن میں کامیاب بغاوت کے بعد بحرین کی آزادی کا نعرہ لگایا گیا اور سعودی عرب میں مسلکی بنیادوں پر مظاہرے شروع کرا دیے گئے۔
پاکستان کے جنرل راحیل شریف کو اسلامک ملٹری الائنس کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ ان کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے پر دو قسم کے لوگ معترض ہیں، اولل دیسی لبرلز اور سیکولرز اور دوئم ایران کو اپنا مرکز سمجھنے والے۔۔۔
سیکولرز نیٹو یا ایساف کے طرز پر اسلامی متحدہ سپاہ کا پلیٹ فارم قائم ہونے پر نالاں ہیں کیوں کہ اِس سے بہرحال امت مسلمہ اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہے، فوجیں متحد ہو گئیں تو عوام بھی ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ سیکولرز مختلف حیلے بہانوں سے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ کہ حکومت سے "اجازت" نہیں لی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی مکمل "اشیرباد" پر ہی یہ کام پائیہ تکمیل کو پہنچا ہے۔
دوسری قسم کے دوستوں کیلئے عرض ہے کہ اسلامی اتحاد میں جلد ہی ایران،عراق،شام اور یمن بھی شامل ہو جائیں گے(ان شاءاللہ)، جنرل راحیل شریف نے اِسی شرط پر ذمہ داری قبول کی ہے۔