حلال عورت ...حرام موت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 17, 2017 | 14:10 شام

تحریر: ثاقب شیر دل راٹھور
اس نے خود کو جلا دیا۔کیا فرق پڑتا ہے اس کا نام کیا تھا۔اخبار نے مسماة 146س145 لکھا ہے۔ روایت ہے اخبار کسی خاتون کی آبرو رکھنے کے لئے اس کا نام خفیہ رکھتا ہے ۔مگریہاں نہ وہ خود رہی نہ ہی آبرو۔ پھر وہ شازیہ ہو یا کائنات، آمنہ ہو یا سونیا، کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ کر بھی کیا سکتی تھی سوائے خود کو جلانے کے۔ہم بھلے بھول گئے ہوں لیکن اسے شاید یاد تھا کہ اس ملک کے ایک رعونت بھرے ڈکٹیٹر نے کہا تھا ۔ ایسی خواتین اپنی آبرو ریزی اس لئے کرواتی ہیں کہ وہ پیسے کما سکیں، ویزا حاصل

کر سکیں یا کسی ترقی یافتہ ملک کی شہریت حاصل کر سکیں۔ہماری سماعتوں پر بے شک پردے پڑے ہوں لیکن اس کی سماعتوں میں شاید ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کے وہ لفظ اب بھی گونج رہے تھے ۔ اگر چار گواہ نہ ہوں تو خاتون کو اپنی آبروریزی پر خاموش ہو کر گھر بیٹھنا چاہیے۔ہماری یاداشت کم ہے مگر اس کی یاداشت میں شاید اسی مظفر گڑھ کی اٹھارہ سالہ آمنہ زندہ تھی جو اپنی آبروریزی ثابت نہ کر سکی اور خود کو جلا بیٹھی۔چار گواہ کہاں سے لاتی ؟آمنہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خود کو جلا ڈالا۔
اچھا ہوا مر گئی۔ مرنا اس کی قسمت میں تھا۔ وہی قسمت جس نے مرد کو حاکم بنا دیا ہے۔تھوڑی دیر کے لئے مان لیجیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ بھی ہوتی۔ وہ مسلمان نہ بھی ہوتی۔تو جویتی سنگھ پانڈے ہوتی اور دلی کے کسی بس میں مرد کی مردانگی کا نشانہ بن کر مرنا ہی تھا اسے۔ جافنا کی سترہ سالہ ودیا ہوتی تب بھی ہوس اسے مار دیتا۔انڈونیشیاءکی اٹھارہ سالہ جینی بیدی ہوتی تب بھی ہوس کا نشانہ بنا کر مار دی جاتی۔یہ مسئلہ صرف ایک قوم یا مذہب کا نہیں ہے۔ یہ مرد کے خمیر کا مسئلہ ہے جس نے اسے حاکم بنا دیا ہے۔یہ اس لٹریچر کا مسئلہ ہے جو دنیا کے ہر مرد کو کسی نہ کسی شکل میں سکھایا گیا کہ عورت مرد کی تسکین کے لئے پیدا ہوئی ہے۔اب وہ تسکین کرتا ہے جیسے بھی ممکن ہو۔جہاں سجا سکتا ہے وہاں سجاتا ہے۔جہاں بیچ سکتا ہے وہاں بیچتا ہے۔جہاں نوچ سکتا ہے وہاں نوچتا ہے۔ کیونکہ وہ کمزرو ہے اور مرد طاقتور۔
ساغر و مینا کے ساتھ وہ سب سے ذیادہ عورت کے جسم کو ہی سراہتا ہے۔اقتصادیات کے ہر منجن ساز کو اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے کے لئے ایک عورت کے جسم کی ضرورت ہے۔اسکرین کے ہر پیشکار کو توجہ کے لئے عورت کا جسم ہی چاہیے۔جہاز میں ائرہوسٹس درکار ہے۔ہسپتال میں نرس درکار ہے۔فوڈ چین میں چست لباس کی لڑکی درکار ہے۔دفتر میں خاتون سیکریٹری درکار ہے۔ گھر میں ملازمہ درکار ہے۔گریس زدہ ڈنٹونک کا ملیدہ عورت کی تصویر سے بکتا ہے۔گٹر صاف کرنے والا تیزاب عورت بیچتی ہے۔رسالے کا سر ورق اس کے بغیر بک نہیں سکتا۔پرفیوم اس کی نیم برہنہ تصویر کے بغیر کیسے بکے۔
کبھی وہ دن بھی تو آئے جب پرس بیچنے والے اشتہار میں وہ مزدور نظر آئے گا جس کی ہڈیاں چمڑے کے بدبودار کارخانے میں کام کرتے کرتے گھس چکی ہوں۔ چشم تماشا وہ نظارہ بھی تو دیکھے جب کپڑے کے اشتہار میں وہ مزدور نظر آئے جس کی انگلیوں کی پوریں کپڑا بنتے بنتے سن ہو چکی ہوں۔ مگر بھیڑیے کو اس سے کیا غرض کہ غزال کتنی کمزور ہے۔ شیر کو اس سے کیا غرض کہ ہرن کتنی نازک ہے۔اس کو اپنی بھوک مٹانی ہے۔
یہ کتابی باتیں ہیں کہ میں ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہوں۔اپنے باطن پر جب بھی غور کرتا ہوں تو ضمیر کے کٹہرے میں میں بس ایک انسان ہوتا ہوں۔ گوشت پوست کا یک عام انسان، جس کو روٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔جسے پیاس لگتی ہے۔ جس کو سردی لگے تو جسم ٹھٹھرتاہے۔ جس کو گرمی میں پسنیہ آتا ہے۔جس کو درد ہوتا ہے۔ جسے تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے درکار ہوتے ہیں سر چھپانے کے لئے چھت درکار ہے۔جسے انسانوں سے محبت چاہیے۔جسے اپنی بات کہنے کاحق چاہیے۔جو ایک برتر اور تہذیب یافتہ مخلوق ہے۔ جس کی عقل، جس کا شعور اسے کائنات کے دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔نہیں۔ ہم صرف انسان نہیں ہیں ہم مرد و عورت ہیں۔ مرد حاکم ہے۔ اب وہ اصول وہ طے کرے گا۔
اخلاقی اقدار کا معیار یہ ہے کہ عورت ملفوف رہے گی تو بچی رہے گی۔ہاں شاید ایسا ہی ہے مگر کبھی یہ نہ سنا کہ پانچ شیروں نے مل کر ایک ہرن کی عصمت دری کی ہو۔ کبھی یہ نہ سنا کہ کسی بھیڑیے نے بندر پر ہاتھ ڈالا ہو۔کبھی یہ نہ سنا کہ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ جسمانی تعلق رکھتا ہو۔اتنے اخلاقی اقدار تو ان جانوروں میں بھی ہوتے ہیں کہ شیر ہرن کو کبھی شیرنی نہیں سمجھتا۔
ہم کونسی مخلوق ہیں جو ہر عورت کو اپنی نگاہ ہوس کا نشانہ بناتے ہیں صرف اس لئے کہ اس نے پردہ نہیں کیا؟ اگر یہی دلیل ہے تو کسی بھوکے کو تندور سے روٹی چھیننے کا بھی حق ہونا چاہیے کیونکہ اسے بھوک لگی ہے اور روٹی بے پردہ پڑی ہے۔ اگر یہی دلیل ہے تو ہر غریب کو بینک کے کیشئر سے نوٹ چھیننے کا حق ہونا چاہیے کیونکہ نوٹ بے پردہ پڑے ہیں۔
یہ مرد کی اخلاقیات کہاں گئیں؟ یہ مرد کا نظریں جھکانا کیا ہوا؟ اسلام میں عورتوں کے حقوق پر سینکڑوں کتابیں دیکھی ہیں مگر کوئی ایک کتاب ایسی نہ ملی جس میں مردوں کے حقوق بیان ہوئے ہوں کیونکہ مرد طاقتور ہے چھین لے گا۔ جو نہ چھین سکے اس ہر بدبودار مرد کی عورت کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اس نے مرد کی ہوس پوری کرنے سے انکار کر دیا تو فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔کبھی لغت دیکھیے تو مردانگی کے سو مترادف مل جائیں گے مگر اس کا متضاد نہیں ملے گا۔ شاید پایا ہی نہ جاتا ہو اس لئے کہ عورت تو تخلیق ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مردانگی کی تسکین کر سکے۔
مسماة س نے خود کو جلا دیا۔لیکن ٹھریئے! وہ س نہیں ہے وہ سونیا ہے۔ بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ مملکت خدادا پاکستان کا ایک شہزادہ سفاری سوٹ میں ملبوس ٹی وی کمیروں اور فوٹوگرافروں کے جلوہ میں سونیا کے خاندان سے تعزیت کرنے پہنچ گیا۔انصاف کا وعدہ ہو گیا۔تصاویر اتار لی گئیں۔ ٹی وی سکرینوں کے لئے رپورٹ بن گئی۔ اب انصاف کا بول بالا ہو گا۔وہی انصاف جو ڈاکٹر شازیہ ،کائنات ، سعدیہ اورآمنہ کو ملا۔ اب وہی انصاف سونیا کو بھی ملے گا۔ شاہوں نے تو نقد انصاف کر دیا۔برہمم، سرزنشم ،معطلم۔
ہم کائنات کو بھول گئے۔ ہم آمنہ کو بھول گئے۔ ہم سونیا کو بھی بھلا دیں گے۔ہمارے ناتواں کاندھوں پر امت مسلمہ کی اور بہت ساری ذمہ داریاں ہیں ۔ ہم نے کشمیر آزاد کروانا ہے ۔ ہم نے فلسطین آزاد کروانا ہے۔ ہم نے افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے۔ہم نے خلافت راشدہ کے نہج پر ایک عظیم اسلامی سلطنت بنانی ہے ۔ہم نے ایک عدد ایٹم بم بنا رکھا ہے جو ہم نے الماری میں سجانے کے لئے تو نہیں بنایا ۔ ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں خودکش بمبار کی شہادت کے فتوے فخر سے دیئے جاتے ہیں مگر ریپ کی گئی عورت کو انصاف نہ ملے اور وہ خود کو جلا دے تو ایسی موت حرام ہے۔