’’جلدی کرو مجھے عمرے پر جانا ہے ‘‘

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 26, 2016 | 16:47 شام

تحریرمیاں عمران احمد
پیشانی پر محراب، چہرے پر داڑھی پوری، سر پر سفید ٹوپی اورشلوار ٹخنوں سے اوپر چڑھی ہوئی تھی۔صاحب کے پاس دو تسبیحیاں تھیں۔ایک دائیں ہاتھ کی کلائی کے ساتھ لٹک رہی تھی اور دوسری دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں گولی کی رفتار سے گھوم رہی ت

ھی ۔وہ دانے پھیرتے ،استغفراللہ پڑھتے اور مجھ سے مسلسل باتیں بھی کرتے جارہے تھے ۔اسی دوران نماز عصر کا وقت ہو گیا۔صاحب نے نماز کی اہمیت اور دنیا اور آخرت میں اس کے فوائد پر روشنی ڈالی اور مجھے نماز پڑھنے کی دعوت دی۔
صاحب چونکہ قابل عزت اور دین سے محبت کا چلتا پھرتا نمونہ تھے اس لیے لوگ ان کی باتوں کو اہمیت دیتے اوران کی امامت میں نماز بھی پڑھتے تھے میں نے بھی صاحب کے پیچھے نمازعصر ادا کی۔نماز کے اختتام پر صاحب نے نیک اعمال کرنے پر تفصیلی بیان دیااوردین سے روگردانی کرنے والوں کیلئے دنیا و آخرت میں سخت سزاؤں پر بھرپور روشنی بھی ڈالی۔میں صاحب کی دین سے محبت اور اپنے کام سے لگن کو دیکھ کر ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا اور دل کے کسی کونے سے یہ خواہش ابل ابل کر باہر آ رہی تھی کہ کاش میری زندگی بھی صاحب کی زندگی جیسی ہوجائے تاکہ میں دنیا و آخرت میں باعزت طریقے سے سرخرو ہو سکوں۔
متاثر ہونے کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ کوٹ پتلون پہنے دو افرادصاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔وہ کچھ دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر ایک نے دوسرے کو اشارہ کیا اور دوسرے نے صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ جناب ہمارے کیس کا کیا بنا؟‘‘
صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا’’ میں پہلے بھی کئی بار آپ سے عرض کرچکا ہوں کہ آپ ہمارا خیال کریں تو ہم بھی آپ کے بارے میں سوچیں گے‘‘
سامنے بیٹھے شخص نے اپنی دائیں ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر رکھتے ہوئے کہا ’’ آپ اپنی بات کریں باقی افسروں کو میں دیکھ لوں گا‘‘
صاحب کچھ دیر کیلئے رکے ،لمبا سانس لیا اورمرزا صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے’’مرزا صاحب پچاس ملین کا ٹیکس آپ کی طرف واجب الادا ہے اسے ختم کرنے کیلئے میں 30لاکھ لوں گا‘‘مرزا صاحب نے اپنی پیشانی پر شکن بناتے ہوئے کہا ’’ 30لاکھ بہت زیادہ ہیں‘‘
صاحب نے لومڑی کی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا’’مرزا صاحب یہ ہمارا حق بنتاہے ۔ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘‘
مرزا صاحب نے کہا ’’لیکن آپ یہ کام کیسے کریں گے؟‘‘
صاحب نے کہا’’ وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ آپ میرا حصہ دیں۔ آپ کو کلیرنس سرٹیفیکیٹ مل جائے گا‘‘
مرزا صاحب نے ساتھ بیٹھے شخص سے مشورہ کیااور 30لاکھ روپوں میں معاملہ طے پا گیا۔صاحب نے پوچھا’’ رقم کب تک ملے گی؟‘‘
مرزا صاحب نے کہا ’’ دوسے تین دن میں ادائیگی ہو جائے گی‘‘
اس کے بعد صاحب نے جو جملہ کہا وہ جملہ ہمیشہ کیلئے میری یادداشت میں اٹک گیا ہے۔ وہ جملہ آج بھی میری زندگی کی بری یادوں کا حصہ ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی اس جملے کو بھلا نہیں پا رہا ہوں۔ صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ،تسبیح کے دانوں کو تیز تیز گھماتے اور استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے کہا’’مرزا صاحب میرا حصہ جلدی بھجوا دینا ۔میں نے عمرے کی ادائیگی کیلئے بھی جانا ہے ‘‘۔اسی دوران نماز مغرب کا وقت ہو گیا۔موؤن نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی۔ صاحب کا وضو قائم تھا ۔وہ جماعت کی امامت کروانے کیلئے آگے بڑھے ،موذن نے اقامت کہی اورنمازیوں نے صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کردی،لیکن میں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکا۔میں جماعت سے علیحدہ ہو گیااوررشوت خور صاحب کے پیچھے نماز کی پڑھنے کی بجائے تنہائی میں نماز مغرب ادا کی اور میں آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا یا کہ اس دن باجماعت نماز ادا نہ کرنے کا مجھے گناہ ملے گا یا ثواب؟
آپ ملک پاکستان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ حرام طریقوں سے کمائی گئی دولت اور اس دولت کو اللہ کی راہ پر خرچ کرنے کے حوالے سے ہماری عوام اور حکمرانوں کا موقف بھی یکساں ہے ۔آپ میاں محمد نوازشریف کی مثال لے لیجئے میاں صاحب عوام کے خون پسینے کے پیسوں سے خریدے گئے مے فیئر فلیٹس کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ،زرداری صاحب سندھ دھرتی کوبیچ کر سرے محل خریدنے کو اپنے پیر ومرشد کی خدمت کاثمر اورسب سے بڑھ کرمولانا فضل الرحمن ضمیر فروشی کے بعد حاصل کیے گئے ڈیزل پرمٹ کو دین کی خدمت کا صلہ اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم قرار دیتے ہیں اور کرپشن کی اس کمائی سے کیے گئے حج اور عمروں کو دنیا اور آخرت میں اپنی بخشش کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ہماری اس قابل رحم سوچ کی سب سے بڑی وجہ کم علمی اور کنفیوژن ہے مثال کے طور پرہم رشوت کے پیسے کو ناجائزاور اس پیسے سے مسجد کی تعمیر کو جائز سمجھتے ہیں ۔ہم بدکاری سے کمائے گئے پیسوں کو حرام اور ان پیسوں سے صدقہ و خیرات کرنا حلال سمجھتے ہیں اور کم علمی کا حال یہ ہے کہ ہم جن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور جن کی نصیحت کو دنیا و آخرت میں نجات کا راستہ سمجھتے ہیں،ہم ا ن کے بارے میںیہ تک جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کا ذریعہ روز گار کیا ہے ۔
ان تلخ حقائق کے پیش نظر آج ملک پاکستان کوایک ایسے باعمل مذہبی اور سیاسی رہنما کی ضرورت ہے جوعوام اورحکمرانوں کے ظاہری حلیے مذہبی بنانے کی بجائے ان کی روحوں کو کرپشن سے پاک کرسکے اور انہیں اس بات کا احساس دلا سکے کہ حرام کی کمائی حج اور عمرہ جیسے نیک اعمال کی ادائیگی کی بجائے طوائفوں کے کوٹھوں پر برباد کرنے کیلئے ہوتی ہے تاکہ کوئی دوبارہ یہ نہ کہ سکے کہ’’ رشوت جلدی دو مجھے عمرے پر جانا ہے ۔‘‘
(بلاگر میاں عمران احمد سے اس ای میل اور انکے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے knight_bishop@hotmail.com
Facebook: https://www.facebook.com/Imranahmed.Mian)