شامی لڑکی بنا العبد کی ترکی صدر سے ملاقات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 21, 2016 | 16:47 شام

حلب(مانیٹرنگ ڈیسک):شام کے شہر حلب میں باغیوں کے زیرانتظام مشرقی حصے میں رہنے والی سات سالہ شامی لڑکی بنا العبد نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی ہے۔بنا العبد نے مشرقی حلب میں اپنی روز مرہ کی زندگی کے بارے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کر کے عالمی توجہ حاصل کی تھی۔بنا العبد اور ان کے چھوٹے بھائی انقرہ کے صدارتی کمپلیکس میں صدر اردوغان کے ساتھ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔میڈیا کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بنا اور ان کے خاندان کے مشرقی حلب سے انخلا کی بعد انھیں ترکی

لانے کے لیے صدر اردوغان نے خصوصی نمائندے کو شام بھیجا تھا۔بنا کی زندگی کی مشکلات اس وقت سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ستمبر میں ٹوئٹر کا سہارا لیا۔اس اکاؤنٹ کے ذریعے انھوں نے اپنے دوستوں کی موت سے لے کر عام زندگی گزارنے کی اپنی کوششوں تک سب کچھ شیئر کیا تھا۔جلد ہی ٹوئٹر پر ان کے فالوورز کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی جن میں جے کے رولنگ بھی شامل ہیں جنھوں نے انھیں ہیری پوٹر کا الیکٹرانک کاپی بھی بھیجی تھی۔بدھ کو بنا نے صدر اردوغان کے ساتھ اپنی تصویر ٹویٹ کی اور لکھا کہ وہ صدر سے ملک کر 'بہت خوش' ہیں جبکہ ایک جگہ انہوں نے کہا ہے کہ 'حلب کے بچوں کی مدد کرنے اور ہمیں جنگ سے نکالنے کے لیے آپ کا شکریہ'بنا کی والدہ فاطمہ نے یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اس مقصد کے تحت بنایا تھا کہ وہ بتا سکیں کہ 'بموں اور سب کچھ سے بچے کس طرح متاثر ہو رہے ہیں۔'حالیہ ہفتوں میں بنا العبد اور ان کی والدہ کی طرف سے مدد کی درخواستیں کی گئی تھیں جب شامی صدر بشار الاسد کی فوجیں باغیوں کے زیرانتظام علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں، اور شامی اور روسی جنگی طیارے فضائی بمباری کر رہے تھے۔حکومتی افواج کی جانب سے شہر کا محاصرہ کیے جانے کے بعد انخلا کے منصوبے کے تحت یہ خاندان علاقہ چھوڑنے میں کامیاب ہوا تھا۔لیکن انھوں نے زیادہ دیر قیام نہ کیا۔ چند ہی گھنٹوں میں بنا، ان کی والدہ، والد اور چھوٹے بھائیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ترکی پہنچا دیا گیا۔کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ شہرت حاصل کرنے لیے بنایا گیا تھا اور ان دعویٰ ہے کہ بنا العبد پہلے ہی ترکی میں رہ رہی تھیں۔تاہم سٹیزن جرنلزم کی ویب سائٹ بلنگ کیٹ کی تحقیقات کے مطابق وہ مشرقی حلب سے ہی ٹویٹ کر رہی تھیں۔تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ خاندان ترکی میں ہی قیام کرے گا یا نہیں جہاں پہلے ہی 28 لاکھ شامی پناہ گزیں قیام پذیر ہیں۔