رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا کوئی ثبوت نہیں ملا: سرکاری کمیشن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 04, 2017 | 17:36 شام

روہنگیا(مانیٹرنگ ڈیسک):میانمار کی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایک کمیشن کا کہنا ہے کہ اسے ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔اپنی عبوری رپورٹ میں کمیشن کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ریپ کے الزامات کی حمایت کے لیے ناکافی ثبوت تھے۔کمیشن نے برما کی سکیورٹی افواج کی جانب سے لوگوں کو مارنے کے دعوؤں کا ذکر نہیں کیا ہے۔برما کی ریاست رخائن میں گذشتہ سال اکتوبر میں فوج کی شورش مہم شروع کیے جانے کے بعد سے روہنگیا کے لوگوں کی جانب سے مبینہ غیر انسانی سلوک کے الزا

مات سامنے آتے رہے ہیں۔بعض افراد کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ میانمار کی حکومت کے بعض اقدامات نسلی کشی کے برابر ہیں۔میانمار کی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والا کمیشن رواں ماہ کے آخر میں اپنی حتمی رپورٹ جاری کرے گا۔کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ میں نسلی کشی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے پاس اس بات کے 'ناکافی ثبوت' ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے کسی کو ریپ کیا ہو۔کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ آتش زنی، گرفتاریوں اور تشدد کی ابھی تفتیش کر رہا ہے۔میانمار میں موجود میڈیا کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کمیشن نے سب سے زیادہ اہم بات کا کہیں ذکر نہیں کیا کہ برما کی سکیورٹی فورسز عام شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔رواں ہفتے کے شروع میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر پولیس کے تشدد کی ویڈیو منظرعام آنے کے بعد کئی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔رخائن میں صحافیوں اور تفتیش کاروں کا داخلہ بند ہے جس کی وجہ سے ان الزامات کی آزادانہ تصدیق مشکل ہے۔رخائن میں میانمار کی مسلمان روہنگیا اقلیت آباد ہے جس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی سکیورٹی فورسز پر ریپ، قتل اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ رخائن میں انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں مصروف ہے۔