پشاور کے چرسی تکے اتنے مزیدار کیوں ہوتے ہیں ؟ اصل راز سے پردہ اٹھ گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 19, 2016 | 17:38 شام

پشاور(ویب ڈیسک)پشاور کی نمک منڈی کے ان ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل جہاں اپنے ذائقے کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے وہیں اس کا نام بھی شہر کی دوسری پہچان بن گیا ہے۔

'چرسی' تکہ شاپ کے مالک نثار چرسی نے اس نام کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ 'آج سے کوئی پچاس سال پہلے میرے والد نے یہ کام شروع کیا تھا اور انھیں لوگ چرسی کہتے تھے۔نثار کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے یہ دکان چرسی کے تکوں کے نام سے مشہور ہوئی اور اب وہ بھی اسی نام پر کاروبار کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے تکوں کا صرف نام ہی 'چرسی کا تکہ' ہے اور اس میں نہ تو کوئی چرس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ خود چرس استعمال کرتے ہیں۔نثار نے بتایا کہ ان تکوں کے لیے دنبے کا ایسے گوشت کا انتخاب کیا جاتا ہے جس پر چربی بہت زیادہ نہ ہو اور وہ گوشت نرم بھی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ مخصوص ذائقے کے لیے انگیٹھی میں انگاروں کی مناسب حرارت کا کردار بھی اہم ہے۔نمک منڈی میں تکے کھانے کے شوقینوں پر نظر ڈالی تو ان میں مقامی افراد سے زیادہ دیگر شہروں سے آنے والے لوگ دکھائی دیے۔صوبہ پنجاب سے آنے والے کچھ لوگوں سے جب پوچھا کہ یہاں کیسے آنا ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ 'آئے تو اپنے کام سے تھے لیکن پشاور آئیں اور یہ تکے نہ کھائیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ان کا کہنا تھا یہ یہاں کی روایتی ڈش ہے۔'دوسرے شہروں میں جو تکے بنتے ہیں وہ اسی کی نقل ہیں۔ اصل تو پشاور کا یہ تکہ ہے اور اصل کا نقل سے مقابلہ تو نہیں ہو سکتا۔نثار چرسی کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں آنے والے افراد عموماً فی کس ایک کلو گوشت کے تکے کھا جاتے ہیں جنھیں ہضم کرنے کے لیے پشاوری قہوہ کام آتا ہے۔نمک منڈی میں تکوّں کے علاوہ صرف نمک اور کالی مرچ سے مٹن کڑاہی بھی بنائی جاتی ہے جس میں دنبے کی چربی استعمال ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مٹن کڑاہی ہو یا تکے نمک منڈی کے پکوانوں کا ذائقہ پاکستان میں اور کہیں کم ہی ملتا ہے۔