نہ مسلمان دہشت گرد ہیں نہ ہماری جنگ اسلام کے خلاف ہے، ہلیری کلنٹن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 10, 2016 | 14:28 شام

واشنگٹن (ویب ڈیسک)امریکی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دوسرا مباحثہ واشنگٹن یونیورسٹی اِن سینٹ لوئس میں ہوا جس میں ہلیری کلنٹن نے میلز، شام و عراق سے متعلق امریکی پالیسی، امریکی معیشت ، اسلام اور ذاتی کردار پر بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کے اخلاقی اقدار، سمجھ بوجھ، کارکردگی اور عزم پر سوال اٹھائے اور ساتھ ہی ملکی سکیورٹی میں بہتری لانے، داعش کے انسداد، انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے اور تجارت کے فروغ کے لیے عملی اقدام کا عزم کیا۔مسل

مانوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ صدر منتخب ہونے پر وہ مسلمانوں کے داخلے کے بارے میں سخت پوچھ گچھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا میں رہنے والے مسلمان شدت پسندی کے بارے میں قانون کے نفاذ سے وابستہ اہل کاروں کو بروقت اطلاع دیں تاکہ شدت پسندی کے واقعات سے بچا جا سکے۔ہیلری نے کہا کہ امریکا اسلام سے جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ یہ لڑائی داعش اور دیگر شدت پسند اور انتہا پسندوں کے خلاف ہے جبکہ وہ خود اکثریتی معتدل مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہیں۔اْنھوں نے کہا کہ مسلمان امریکا میں جارج واشنگٹن کے وقت سے موجود ہیں اور ان میں سے اکثر پْر امن، باصلاحیت اور بہت ہی کامیاب ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں، افریقی امریکیوں، ہسپانوی لوگوں کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔اس ضمن میں اْنھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر کیپٹن ہمایوں کے خاندان کے خلاف بات کی، جو ایک قومی ہیرو ہیں، جنھوں نے ملک کے لیے جان نثار کی۔اس سلسلے میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو آج کیپٹن ہمایوں زندہ ہوتا، عراق جنگ کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ شام کے بارے میں ایک سوال پر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ امریکی فوج کو شام میں تعینات کرنے کے حق میں نہیں ہیں ایسا کرنا درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔