مسٹر لاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریف الدین پیرزادہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 04, 2017 | 18:36 شام

 

شریف الدین پیرزادہ بلا شبہ پاکستان کے سب سے بڑے قانون دان تھے۔وہ جتنے بڑے قانون دان تھے اتنی ہی زیادہ متنازعہ انکی شخصیت بھی تھی۔بی بی سی نے انکے انتقال پریہ ہیڈ لائن لگائی’’شریف الدین پیرزادہ ہر فوجی آمر کی بیساکھی‘‘۔کسی جمہوری معاشرے میں فوجی آمریت کی بیساکھی بننا غیرقانونی تو نہیں ہوسکتاالبتہ معیوب ضرور ہوسکتاہے۔اگر غیر قانونی ہوتا تو آمریت کے خاتمے جب جمہوریت کے اشجار لہلہانے اورسیاستدان جمہوریت چشمے بہانے لگے تو غیر قانونی کام کرنیوالوں کی گرف

ت ہوسکتی تھی۔اگر پیر زادہ صاحب کے اقدامات پرماورائے آئین اور قانون تھے اوربوجوہ پیرزادہ صاحب کی گرفت نہیں کی گئی تو ان سے زیادہ جوابدہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مارشل لائوں کی راہ ہموار کی۔2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنیوالی پارلیمان نے پرویز مشرف کے ’’کو‘‘ کی توثیق کردی تھی۔وہ پارلیمنٹیرین آمریت شکن اور شریف الدین پیرزادہ جیسے مشرف کے حامی کچھ حلقوں کی نظر میں قانون شکن قرار دیئے گئے۔مشرف کی بغاوت کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تو وہ پارسا بن گئے، دودھوں دھل گئے۔مگر انکے ایمرجنسی کے نفاذ کے عمل کو جسٹس افتخار کی کورٹ نے آئین شکنی قرار دیا۔ آئین توڑنے کی سزا موت ہے۔جسٹس افتخارنے مشرف کے پی سی او تحت حلف اُٹھایا اورتین نومبر 2007ء ایمرجنسی کے نفاذمیں وہ مشرف کے زخم خوردہ تھے۔1999ء میں جمہوریت کا کریا کرم بدترین قانون شکنی تھی،یہ آئین اور قانون کا قتل تھاجبکہ ایمرجنسی کے نفاذ کو اسکی سنگینی نوعیت کو دیکھتے ہوئے آئین اور قانون کے بازو مروڑنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔قتل پارلیمنٹ نے معاف کردیا۔ بازو مروڑنے پر چودھری صاحب پھانسی لگانے پر تُلے بیٹھے تھے۔

شریف الدین پیرزادہ کو جب کسی نے بھی فیس دے کر بلایا وہ چلے گئے۔ان سے کسی مارشل لائی جرنیل نے اپنے قانون شکنی پر مبنی اقدام سے پہلے رائے نہیں لی۔جمہوریت کی کشتی ڈبو کر خود کو بچانے اورکام چلانے کی راہ دکھانے کی مشاورت لی۔وہ جس ملک کے مکیں ہیں وہاں تو حسین حقانی کیا شکیل آفریدی اور کلبھوشن کو بھی وکیل مل جاتے ہیں۔

بُرا یا بھلا سہی وہ ہر فوجی آمر کا ساتھ دینے اورانکی قانونی مشکلات کو دور کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ان پر فوجی آمروں کا ساتھ دینے کا الزام ہے مگر ہمارے ہاں جمہوریت کا جس طرح مردہ خراب کیا جاتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ الزام ایک انعام نظر آتا ہے۔انکے انتقال کے بارے میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس(ر) ارشاد حسن خان صاحب نے بتایا یہاں قیوم نظامی صاحب بھی موجود تھے۔ ارشاد حسن خان انکے کافی قریب رہے بلکہ وہ اٹارنی جنرل تھے تو انہوں نے جسٹس ارشاد کو ڈپٹی اٹارنی جنرل نامزد کیا تھا۔ارشاد حسن کہتے ہیں کہ وہ میرٹ سے ہٹ کے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ایک کیس میں انہوں نے اتفاق سے مجھے دلائل دیتے سنا تو بنچ کے ارکان سے رائے لی۔ایک دن مجھے انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے آپ کو عارضی طور پر رکھا تھا آج ججز سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نوجوان وکیل بڑا محنتی ہے،اس لئے آج سے آپ مستقل ہیں‘‘۔

شریف الدین پیر زادہ کے بارے میں اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے بتایا کہ ’’ایک مرتبہ جنرل ضیاء کے پاس میں بیٹھا تھاکہ پیرزادہ سعودی عرب سے پاکستان آئے تو وہ بھی جنرل صاحب کو ملنے آگئے۔وہ ان دنوں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل تھے۔جنرل ضیاء نے مجھے ایک قانون کا مسودہ تیار کرنے کو کہا تھا،جنرل ضیاء نے کہا کہ میں وہ مسودہ پیرزادہ صاحب کو دکھا دوں،میں نے بطور لاء سیکرٹری کہا کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں اس لئے ان کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔پیرزادہ صاحب نے کہا کہ ضرور دکھائیں ،رات کو گھر لے آنا،میں رات کو مسودہ لے کے انکے گھر چلا گیاانہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس کو غور سے دیکھ لیا،میرے ہاں کہنے پر انہوں نے کہا ٹھیک ہے اس کو اپنے پاس ہی رکھیں،آئو کھانا کھاتے ہیں۔وہ اپنی اتھارٹی قائم رکھتے تھے۔جسٹس صمدانی لاء سیکرٹری اور پیرزادہ وزیر قانون تھے۔پیرزادہ صاحب کی خواہش ہوتی کہ وہ انہیں ایئرپورٹ پر سی آف اور ریسیو کیا کریں مگر صمدانی اس نیچر کے نہیں تھے۔پیرزادہ نے جب کراچی یا کہیں بھی جانا ہوتا تو صمدانی صاحب کو کہتے فلاں فائل ایئرپورٹ لا کے مجھے فلا ںٹائم دکھا دو‘واپس آتے تو بھی کسی معاملے بریفنگ یا ڈسکشن کے بہانے کہتے ایئرپورٹ آجائیں،وہ آجاتے تھے،اس طرح صمدانی صاحب کو بھی محسوس نہ ہوتا اور پیرزادہ صاحب کی پروٹوکول کی خواہش بھی پوری ہوجاتی۔

اب ایک طائرانہ نظر انکے حالات زندگی پر بھی ڈال لیتے ہیں:

سید شریف الدین پیرزادہ کی پیدائش 12 جون 1923 کو انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں ہوئی۔ انکے والد بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے اور انڈین سول سروس میں رہے۔شریف الدین پیرزادہ نے اپنے کیرئیر کی ابتدا بمبئی ہائی کورٹ سے کی۔ وہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے جونیئر بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی لا فرم قائم کی۔ ان کا شمار پاکستان کے مہنگے ترین وکلا میں کیا جاتا تھا۔وہ حکومت پاکستان کے کئی اہم منصب پر فائز رہے۔ انہوں نے دو بار بحیثیت وزیر خارجہ، تین بار اٹارنی جنرل اور پھر سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے سینیئر مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دئیے۔ 1996 سے 2008 تک وہ اعزازی سفیر بھی رہے جس کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ یہ تمام منصب انکے پاس زیادہ تر فوجی حکومتوں کے دوران رہے۔شریف الدین پیرزادہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا انہوں نے کبھی کسی فوجی حکمران کی طرف داری نہیں کی بلکہ قانونی مشیر کے طور پر انہیں معاونت فراہم کی۔

پاکستان کے قیام کے 11 سال بعد جنرل ایوب خان کے نافذ کیے گئے پہلے مارشل لاء کی انہوں نے حمایت۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان نے انکے علاوہ دیگر وکلا منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بلایا تھا جبکہ جنرل ضیاالحق نے چیف جسٹس کے کہنے پر ان کا انتخاب کیا تھا لیکن اے کے بروہی کو بھی شامل رکھا گیا۔

میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب صدر پاکستان سے اسمبلیوں کو معطل کرنے کے اختیارات واپس لیے گئے تو آئینی درخواست کی سماعت کیلئے عدالت نے انہیں معاونت کیلئے طلب کیا۔ شریف الدین پیرزادہ نے ان اختیارات کو سیفٹی وال قرار دیا اور اس کو جاری رکھنے کی حمایت کی تھی۔ ان اختیارات کے تحت ہی محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں معطل کی گئی تھیں۔

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے آخری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو بھی انہوں نے آئینی راستہ نکال کر دیا تھا۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنے ایک انٹرویو میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پہلی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اجلاس میں تمام جنرلز موجود تھے اور ان جنرلز کا کہنا تھا کہ مارشل لاء کا اعلان ہو اور جنرل مشرف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنیں۔‘ 'میں سنتا رہا۔ اسکے بعد مشرف کو کہا کہ کیا ہم اکیلے بیٹھے سکتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور مارشل لاء درست نہیں۔ آپکی سول طرح کی حکومت ہونی چاہیے۔'شریف الدین پیرزادہ نے ہی جنرل پرویز مشرف کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بننے کا مشورہ دیا تھا اور اس منصب کیلئے آئینی ڈرافٹ بنا کر دیا، جس طرح انہوں نے جنرل ضیاالحق کو بنا کر دیا تھا لیکن اس بار اس میں کچھ تبدیلیاں تھیں۔

شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ پرویز مشرف نے ڈرافٹ دیکھ کر کہا تھا کہ اس میں تو مارشل لاء کا کوئی ذکر نہیں، لوگ ہمارے احکامات نہیں مانیں گے جس کے بعد انہوں نے مشرف کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ سیاسی جماعتیں انکی حمایت کر چکی تھیں۔پاکستان میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے بعد ملک میں وکلا کی سب سے بڑی جدوجہد چلی تو شریف الدین پیرزادہ اپنی کمیونٹی کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے۔ انہوں نے افتخار چوہدری کیخلاف ریفرنس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ اسکی مخالفت کرتے۔انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعدد بار پاکستان کی قیادت کی اور وہاں ہیومن رائٹس کونسل اور سکیورٹی کونسل میں خطاب کیا۔ اسکے علاوہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے جج اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے منتخب سیکریٹری کے منصب پر بھی فائز رہے۔شریف الدین پیرزادہ پاکستان کے قیام کی تاریخ، محمد علی جناح کی زندگی اور پاکستان کے آئین سمیت دیگر موضوعات پر دس کے قریب کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

سینئر قانون دان ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ شریف الدین کا سیاسی اور قانونی کنٹریبیوشن منفی زیادہ رہا ہے لیکن انکے انتقال کے بعد اس پر بات نہیں کی جاسکتی۔ 'میرا ہمیشہ انکے ساتھ نظریاتی اختلافات رہا۔ پیرزادہ کا یہ نظریہ تھا کہ وکیل وکیل ہے اس کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔'