بابائے امن… اور جنرل گریسی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 19, 2017 | 05:40 صبح

ملک غلام ربانی گلاسکو برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کو بابائے امن کہا جاتا ہے۔ اثرچوہان صاحب کے ساتھ انکی بڑی دوستی ہے۔ بابائے امن چکوال کے دیہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں تاہم لاہور میں بھی ڈیرہ بنا لیا ہے۔ دو روز قبل اثر چوہان صاحب نے چائینز لونگ فنگ میں شام کو انکے روبرو کر دیا۔ اثر چوہان نے بتایا کہ نظامی صاحب نے ملاقات کے دوران ان سے ’’بابائے امن‘‘ کی وجہ تسمیہ پوچھی تو ان کا جواب تھا۔ گلاسکو میں پاکستانی اگر کہیں آپس میں الجھ پڑتے تو میں انکی صلح کرا دیا کرتا تھا۔ لوگوں

نے اس کردار کے حوالے سے بابائے امن کہنا شروع کر دیا۔ ملک ربانی نے سیاست میں حصہ نہیں لیا تاہم ان کو ملکہ برطانیہ نے ممبر آف دی برٹش ایمپائر کا خطاب دیا ہے۔ دو سال قبل دونوں مہان میرے بیٹے طاہر حسین کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔ میرا ملک صاحب سے وہی سوال تھا کہ زندگی میں سخت ترین وقت سے کبھی پالا پڑا۔ انہوں نے دو واقعات سنائے۔

2010ء میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا تو ہم نے ملتان میں متاثرین کیلئے ایک ہزار گھر تعمیر کئے۔ یکم جون 2011ء کو یہ گھر متاثرین کے حوالے کر دئیے گئے۔ ان گھروں کی تعمیر میں رینجرز کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ جگہ اور میٹریل ہم فراہم کرتے، رینجرز کے انجینئرز تعمیر کر دیتے۔ ایک ہزار گھر متاثرین کے حوالے کرنے کے موقع پر ڈی رینجرز پنجاب میجر جنرل محمد نواز شریک تھے۔ اسکے بعد ہم راجن پور میں پراجیکٹ شروع کرنیوالے تھے میں اور میرے ساتھیوں اور جنرل نواز نے اس تقریب کے بعد راجن پور جانا تھا۔ جنرل نواز نے کہا کہ وہ پنڈی سے ہو کر راجن پور جائینگے۔ انہوں نے مجھے بھی ہیلی کاپٹر میں ساتھ چلنے کو کہا۔ میں ہیلی کاپٹر میں سوار ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں کچھ ڈاکومنٹس کی کاپیاں ایک فولڈر میں تھیں۔ ہیلی کاپٹر ابھی سٹارٹ نہیں ہوا تھا۔ جنرل صاحب شاید کچھ مصروف ہوئے تو میں بھی ہیلی کاپٹر سے باہر آ گیا۔ اپنے ساتھیوں سے گفتگو سے مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے ہیلی کاپٹر میں راجن پور جانے پر خوش نہیں ہیں۔ اتنے میں جنرل نواز بھی ہیلی کاپٹر کی طرف آنے لگے تو میں نے ان سے شکریہ کیساتھ معذرت کرلی۔ انکو دوستوں کے احساسات سے آگاہ کیا تو انہوں نے اصرار نہیں کیا۔ ہم لوگ وہاں سے راجن پور کیلئے روانہ ہو گئے۔ راجن پور جہاں ہمارا قیام تھا، وہاں ٹی وی چینلز پر ٹکر چل رہے تھے۔ ’’جنرل نواز کا ہیلی کاپٹر کوٹ سلطان کے قریب دریائے سندھ میں گر گیا‘‘۔ اسکے ساتھ ہی ٹی وی پر اس حادثے کو تخریب کاری یا سبوتاژ کیا جا رہا تھا۔ اس ہیلی کاپٹر میں جنرل نواز کے ساتھ ان کا بیٹا، پائلٹ اور ایک صوبیدار بھی شہید ہو گئے۔ وہیں جہاں ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے میرے موبائل پر کسی صاحب نے فون کر کے بتایا کہ وہ کوٹ سلطان کے علاقے میں سکول ٹیچر ہے۔ ہیلی کاپٹر حادثے کے قریب مویشی چرانے والوں کو دریا میں تیرتا ایک فائل کور ملا جو وہ مجھے دے گئے۔ اس پر آپ کا موبائل نمبر لکھا تھا۔ میں یہ فائل پولیس کے حوالے کر رہا ہوں۔ میرے لئے پریشان کن صورتحال یہ تھی کہ پولیس یا ادارے یہ انویسٹی گیشن کرینگے کہ فائل ہیلی کاپٹر میں کیسے آئی اور پھر سبوتاژ کی بات ہو رہی تھی۔

ملک غلام ربانی نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’بابائے امن‘‘ بھی مرحمت فرمائی۔ جس میں انکی جنرل گریسی سے ملاقات کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔ ملک ربانی کہتے ہیں ہمارے علاقے کے غلام محمد، سر جنرل ڈگلس گریسی کے ساتھ کسی زمانے میں ملازم تھے۔

ایک دن غلام محمد نے کہا کہ ”میں تمہاری ملاقات فوج کے ایک بڑے افسر سے کراتا ہوں“۔ میں نے کہا ”چلو چلتے ہیں“ اُس نے مجھے تانگے میں بٹھایا کمانڈر انچیف کی رہائش گاہ کی طرف چل دیئے۔ جب ہم اُن کی رہائش گاہ کے قریب پہنچے تو کہنے لگا۔
”او یار گریسی صاحب تو گھر پر نہیں ہیں“
تمہیں پہلے کیسے معلوم ہو گیا؟ کہ وہ گھر پر نہیں ہیں“
”بڑا افسر جب اپنے بنگلہ میں ہوتا ہے تو فلیگ لہرا رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو سمجھو کہ سی این سی صاحب گھر میں موجود نہیں ہیں“۔
جب ہم بنگلے میں داخل ہوئے تو حوالدار صاحب اور دوسرا عملہ بڑے ادب و احترام سے ملا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ صاحب آنے والے ہیں۔ غلام محمد نے بیگم صاحبہ کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ بیگم صاحبہ نے ہمیں اندر اپنے پاس بلایا۔ گریسی صاحب کی اہلیہ آئیں اور غلام محمد کو گلے لگا کر ملیں، بہت پیار کیا اور میرے بارے میں پوچھا کہ ”یہ کون ہے؟“
غلام محمد نے کہا یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس وقت میں نے دھوتی باندھ رکھی تھی۔ مسز گریسی نے ہمارے لئے پرتکلف چائے کا اہتمام کیا۔ ہمارے لئے پیسٹریاں منگوائیں۔ پیسٹری کھانے کا میرا پہلا اتفاق تھا۔ اس لئے میں اسے کاغذ سمیت کھا گیا لیکن وہ کاغذ میرے حلق میں جا کر پھنس گیا تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ کھانے کی چیز نہ تھی۔
تھوڑی دیر بعد گریسی صاحب تشریف لے آئے وہ ہم دونوں سے نہایت اشتیاق سے ملے۔ غلام محمد نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ میرا کزن ہے۔ جنرل صاحب فرمانے لگے۔
”تم بھرتی ہونا مانگتا“
”جی ہاں!“ میں نے کہا
”کہاں؟“ انہوں نے پھر پوچھا
”سگنل میں“ میں نے جواب دیا۔
میں نے سگنل میں بھرتی ہونے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ جب میں جماعت پنجم کا طالب علم تھا تو بعض خواتین اپنے فوجی شوہروں یا بیٹوں کے نام خط لکھوانے آیا کرتی تھیں جنہیں میں زیادہ تر خطوط لکھا کرتا تھا وہ سگنل میں ملازم تھے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ایک بہت بڑی تعداد فوج میں بھرتی ہوئی تھی۔ جب وہ فوجی چھٹی آتے تو ان کی پگڑی اور شملہ بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ میں نے دل میں یہی خیال کیا کہ یہ باقی فوجیوں سے بڑے افسر اور باوقار ہوں گے۔
گریسی نے کہا۔
”سگنل بننا چاہتے ہو تو کھڑے ہو کر دکھاﺅ“
میں کھڑا ہو گیا۔ میرا بغور جائزہ لینے کے بعد گریسی نے کہا
”تمہاری چھاتی بہت چھوٹی ہے“۔
انہوں نے اپنے ایک ملازم سے ریکٹ اور بال منگوائے اور فرمانے لگے۔
”لو! ان سے کھیلا کرو۔ پریکٹس کرو گے تو تمہاری چھاتی چوڑی ہو جائے گی اور تم جوان بن جاﺅ گے“۔
جنرل گریسی نے عام روایات سے ہٹ کر مجھ پر شفقت فرمائی۔ انہوں نے اسی وقت کرنل نیگ کے نام خط لکھا کہ اپنے دوست غلام محمد کے چھوٹے بھائی کو بھیج رہا ہوں۔ اسے سگنل میں سیٹ کریں۔
انہوں نے ایک خط میرے حوالے کیا اور کہا
”یہ خط ابھی جی ایچ کیو میں کرنل نیگ کے پاس لے جاﺅ“۔
غلام محمد کہنے لگے ”تمہاری تو قسمت کھل گئی ہے“۔
میں نے کہا ”کیا مطلب؟“
”اس نے کہا کہ فوج کے سب سے بڑے افسر نے تمہاری بھرتی کا آرڈر دے دیا ہے“۔
”میرا قد تو چھوٹا ہے۔ میں کیسے بھرتی ہو سکتا ہوں؟“ میں نے کہا
غلام محمد جھنجھلا کر بولے ”یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ جب قدرت انسان پر مہربان ہو تو اسی طرح ہوتا ہے“۔
بہرحال گریسی صاحب نے ہمیں اپنی گاڑی دی۔ میں زندگی میں پہلی بار فوجی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔ مجھے اس وقت ایک خاص قسم کا نشہ محسوس ہوا۔ ڈرائیور پنجابی تھا۔ اس نے پوچھا ”گریسی صاحب تمہارے کیسے واقف ہیں؟“
”میرے بھائی کے جاننے والے ہیں“ میں نے کہا
راستے میں اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ ہم کرنل نیگ کے پاس پہنچ گئے۔ میں نے انہیں گریسی صاحب کا خط پیش کیا۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور کہنے لگے۔
”تمہارا قد بہت چھوٹا ہے۔ تمہیں بوائز میں بھرتی کرتے ہیں“۔
کرنل نیگ نے مجھے خط لکھ کر دیا اور ساتھ ہی متعلقہ افسر کو فون بھی کیا اور مجھے بوائز رجمنٹ میں بھرتی کر لیا گیا۔ ان دنوں بوائز رجمنٹ کا کیمپ مری سے آگے گھڑیال کے مقام پر لگا کرتا تھا۔ جب سردی ہوتی اور برفباری ہونے لگتی تو وہ اوجڑی کیمپ میں آجایا کرتے تھے۔ میں اوجڑی کیمپ میں پہنچا تھا تو وہ ابھی وہاں پہنچ کر کیمپ وغیرہ لگا رہے تھے۔ اسی وقت ہماری گاڑی اندر داخل ہوئی۔
تمام فوجی سٹاف کار کو دیکھ کر الرٹ ہو گئے کیونکہ کار پر جھنڈا لگا ہوا تھا۔ میں فوجیوں کو اس طرح دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔ میجر صاحب کی خدمت میں سفارشی خط پیش کیا گیا۔ انہوں نے مجھے پیار کیا۔ مجھ پر اس قدر مہربانی جنرل گریسی کے خط کی وجہ سے ہو رہی تھی۔
میجر صاحب مجھے اپنے دفتر میں لے گئے۔ دفتر بہت ہی شاندار تھا۔ ہم دفتر میں بیٹھ گئے۔ میجر صاحب نے مجھ سے پوچھا ”کیا تمہارے پاس اور کپڑے نہیں ہیں؟“
”جی نہیں۔ میرے پاس اور کپڑے نہیں ہیں۔ بس یہی ہیں جو میں نے پہنے ہوئے ہیں“۔ میں نے چھ دن سے کپڑے تبدیل نہیں کئے تھے۔ وہی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
درزی کو بلوایا گیا۔ میرا ناپ لیا گیا اور رات بھر میں دو لٹھے کے سوٹ سلوا دیئے گئے اور جوتے بھی میرے لئے منگوائے گئے۔ میجر صاحب نے میری تعلیم وغیرہ کے بارے میں معلوم کیا۔ بھرتی کے کچھ عرصہ بعد مجھے بوائز لیفٹیننٹ بنا دیا گیا اور ٹش پپس بھی لگا دیئے گئے۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ ہمیں نائٹ ڈیوٹی نہیں کرنا پڑتی تھی اور نہ ہی سنتری کی ڈیوٹی دینا پڑتی تھی۔ بوائز لیفٹیننٹ کا ایک علیحدہ میس ہوتا تھا جو ذرا بہتر تھا۔ میرے ساتھ ایک بوائے لیفٹیننٹ سرفراز صاحب تھے جو کیپٹن ریٹائر ہوئے۔ جو بعد میں آزاد کشمیر میں وزیر جنگلات رہے۔

 

قسمت کا دھنی

(بشکریہ اردو ڈائجسٹ)

kismat ka dhani

پنجاب کے ضلع تلہ گنگ کے ایک دور افتادہ اور بنیادی سہولتوں سے محروم گائوں ڈھلی کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ملک غلام احمد ربانی کو برسوں کی مسلسل محنت، مشقت اور دیانت کا خوب پھل ملا۔ جہاں لوگوں کے دلوں میں جگہ ملی وہاں حکومتی سطح پر سماجی خدمت کا اعتراف الگ سے کیا گیا۔ برطا نوی شہریت کا ’’اعزاز ممبر برٹش ایمپائر‘‘ اوربرطانوی کمیونٹی کی طرف سے کنگ آف گلاسکو اور بابائے امن کے اعزازات اس کا اظہارو اقرارہے۔

آپ بیتی ایک مضطرب چرواہے کی کہانی ہے جس کا تعلیم سے دل اچاٹ ہوا۔ نوکری سے باغی ہوا، ملک سے باہر جا کر بھی روح کا اضطراب ختم نہ ہوا۔ وہ ہمیشہ نوکری کی محدودیت اور خود مختاری سے کہیں آگے کا سوچتا تھا۔ اسی سوچ نے اسے زندگی میں کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اس کی زندگی کا کینوس ،جہدمسلسل ،تحریک اور فعالیت کے رنگوں سے مزین ہے۔ آج برطانیہ اور پاکستان میں ان کی پہچان خدمت خلق کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے اور کامیاب کا روباری شخصیت کے طور پر ہے۔
اپنی نصف صدی پر محیط عملی زندگی میں انہوں نے جوہمہ جہت اور ہمہ گیر کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ اس سادہ،کم پڑھے لکھے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملک غلام احمد ربانی کے لیے ہی اعزاز و اطمینان کی بات نہیں بلکہ ایسے ہی مشکل اور صبر آزما حالات سے دوچار آج کے نوجوانوںکے لیے بھی ایک چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

انھوں نے زندگی بھر دیانت داری، صاف دلی اور محنت سے جی نہ چرانے اور مسلسل بہتر سوچتے رہنے کو اپنے معمول کا حصہ بنائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے مہربان نے ہر جگہ ان کا بازو تھامے رکھا۔
یوں کل کا گڈریا، گائوں میں بکریاں اور بھینسیں چرانے والا، آج پورے قد سے کھڑا اپنی زندگی کے سبھی دنوں اور لمحوں کو پورے فخر اور اعتماد سے بیان کرتا ہے اور کسی لمحے اپنی عزت، کمزوری یا کسی کمی پہ پریشانی کا اظہار نہیں کرتا۔
آئیے اس ماہ ایک سادہ سے انوکھے آدمی سے ملتے اور اُس کی آپ بیتی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ (مدیراردو ڈائجسٹ)

میراتعلق ڈھلی کے ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میرے والد حاکم خان ایک معمولی کاشت کار تھے اور گزر بسر مشکل سے ہوتی۔میرے والد مجھے اعلی تعلیم دلوانا چاہتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تعلیم کے ذریعہ میں معاشی خوشحالی حاصل کرسکوں گا۔ مجھے گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ میں نے پرائمری کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول ٹمن میں داخل کروایا گیا۔ یہ اقامتی درسگاہ تھی۔میرے تمام عزیز و اقارب اس بات پر بے حد مسرور تھے کہ میں تعلیم حاصل کررہا ہوں اور فارغ التحصیل ہو کرسکول ٹیچر لگ جائوں گا۔ ان کے نزدیک سکول ٹیچر بہت بڑا عہدہ تھا۔ انہی دنوں میری منگنی میری ماموں کی بیٹی سے ہو گئی تھی ۔

میرے ماموں (سسر) اور میری خالہ جن کی اولاد نہیں تھی، مجھے بہت پیار کرتے تھے اور جیب خرچ کے لیے معقول رقم دیا کرتے تھے۔ میں اس رقم سے دوستوں کے ساتھ خوب مزے کیا کرتا تھا،کچھ شرارتی بھی تھا انہی حرکات کی بنا پر اسکول سے خارج کر دیا گیا۔ میرے والد نے سزا کے طور پر مجھے بکریاں اور بھینسیں چرانے کی ذمہ داری سونپ دی۔یہ ایک نہایت مشکل کام تھا۔میرے ریوڑ میں شامل جانور روزانہ کسی نہ کسی کا کھیت خراب کر دیتے تھے اور لوگ میرے والد کے پاس شکایت لے کر آتے تھے۔کئی دفعہ لوگوں سے جھگڑا بھی ہوجاتا تھا۔ میں اس کام سے تنگ آگیا تھا ۔

میرے والد نے مجھے دوبارہ گورنمنٹ مڈل سکول سگھر میں داخل کروادیا ۔میرا ایک سال ضائع ہوچکا تھا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر ملک کرم الٰہی نے میرا حوصلہ بڑھایا اور مجھے پڑھائی کی طرف مائل کیا۔ میںنے ان کی خصوصی توجہ سے اینگلو ورینکلز (مڈل) کاامتحان دیا۔ جب نتیجہ نکلا تومیرا رزلٹ لیٹ تھا۔ استاد محترم ملک کرم الٰہی صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ میرا نتیجہ نکلے او ر مجھے اپنی زیر تربیت منشی بھرتی کروا دیں۔ مگرایسا نہ ہوسکا، قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

میں گائوں میں بے قراری سے نتیجے کا انتظار کررہا تھا۔ میرے علاقے کے نوجوان فوج میں بھرتی ہونا فخر سمجھتے تھے میں نے بھی سوچا کہ مزید تعلیم لینے کے بجائے فوج میں بھرتی ہوجاتا ہوں۔ یہ ۱۹۴۸ء کی بات ہے۔ پاکستان ابھی بنا تھا۔میرے ایک عزیزمحبت خان اجناس کو گوجر خان لے جاکر منڈی میں بیچتے تھے۔ میں نے سیاحت کے لیے ان کے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہا ر کیا لیکن میری والدہ کی ناراضی کے ڈر سے انہوں نے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے والدین سے بات کی مگر وہ نہیں مانے۔ لیکن میں کچھ کرنے کے لیے بے قرار تھا۔

جس دن گائوں سے محبت خان نے گندم کا ٹرک لے کر جانا تھا میری والدہ نے گھر کے دروازے کو تالا لگا دیا تھا کہ میں رات کو اس کے ساتھ نہ چلا جائوں۔گرمیوں کے دن تھے۔ میں چھت پر سویا ہوا تھا۔ جب ٹرک میرے گھر کے قریب سے گزرا تو میں نے چھلانگ لگائی اور گندم کی بوریوں میں چھپ گیا ۔جب گوجر خان پہنچے تو محبت خان کو میری اس حرکت کاپتا چلا۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ وہاں ہمارے ایک عزیز غلام محمد بھی گندم بیچنے آئے ہوئے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔

وہ کسی دور میں جنرل گریسی کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ وہ مجھے ان کے گھر لے گئے۔ جنرل گریسی سے ملاقات کے دوران میں نے پاک فوج میں سگنلزکے شعبے میں ملازم ہونے کی خواہش کا اظہار کیااور میں فوج میں بھرتی ہوگیا

ایک دن میں کسی کام سے جہلم گیا ہوا تھا کہ میری یونٹ کے ایک ریٹائر میجر علی حسین شاہ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک فیکٹری میں سپر وائزر کی ملازمت کر رہے ہیں۔ اس ملاقات نے مجھے کچھ کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں سوچنے لگا اگر اتنے بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی آدمی نے نوکری ہی کرناہے تو پھر یہ میری زندگی کا مقصد نہیں۔ میں نے فوج کی ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا میں درخواست لے کر کرنل انچارج کے پاس پیش ہوا۔ وہ ہمارے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور میرے گھریلو حالات سے بھی واقف تھے۔ وہ ڈانٹنے لگے کہ تم روزگار کیسے کمائو گے تمھیں فوج سے فارغ نہیں کروں گا۔ میں نے انہیں علامہ اقبال کے شعر کا یہ مصرع سنایا۔

؎ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جائواپنی قسمت آزمائو۔
ان دنوں منگلا ڈیم بن رہا تھا اور واپڈا غیر سرکاری ادارہ تھا۔ وہاں میں نے انچارج کمیونیکیشن کے طور پر ملازمت شروع کردی۔ میری تنخواہ۲۵۰؍ماہوارلگائی گئی۔ میں لاہور کے ہیڈ آفس میں کام کرنے لگا لیکن میں کاروبار کرنا چاہتا تھا۔میں کشادگی رزق کے لیے سوچتا رہتا تھا۔میری پہلی شادی ماموں زاد سے تقریباً بارہ سال کی عمر میں ہو گئی تھی لیکن میری اولاد نہیں تھی۔ حسن اتفاق سے میری دوسری شادی لاہور میں مقیم میری خالہ زاد سے ہوگئی جو سرکاری سکول میں معلمہ تھی۔ انہی دنوں ایک دفتری ساتھی کی معرفت پاسپورٹ آفس کے ایک آفیسر نذیر احمد سے تعارف ہوا۔

ان کے بچے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور وہ ان سے فو ن کے ذریعے بات چیت کرنے میرے دفتر آیا کرتے تھے۔ ان سے دوستی ہوگئی۔ ایک دن انہوں نے مجھے برمنگھم جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا۔ میں نے کہا میرے پاس تو پاسپورٹ نہیں ہے۔ ان دنوں پاسپورٹ کاحصول بہت مشکل تھا۔

انہوں نے کہا کوئی بات نہیں، آپ فوٹو دے دیں۔میں نے اورمیرے دوست چوہدری نذیر (برطانیہ) نے اپنی تصویریں انہیں دے دیں۔ چند دنوں بعد ہمارے پاسپورٹ بن گئے۔چوہدری نذیر احمد فوراً برطانیہ روانہ ہو گئے لیکن مجھے گھر سے اجازت نہ ملی میری دوسری بیوی کا خیال تھا کہ میں برطانیہ میں نئی شادی کرلوں گا۔انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی قائل کر رکھا تھا۔ مجھے ایک ترکیب سوجھی منصوبے کے مطابق برطانیہ سے چوہدری نذیر نے مجھے خط لکھنا شروع کر دیئے جس میں گھر والوں کو ہر مہینے ہزاروں روپے ارسال کرنے کا ذکر ہوتا۔

میں دانستہ خط ایسی جگہ پر رکھتا کہ میری بیوی پڑھ لے۔بالآخر میری یہ ترکیب کامیاب ٹھہری اور مجھے برطانیہ جانے کی اجازت مل گئی۔
میں جب برطانیہ کے لیے عازم سفر ہورہا تھاتو اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت پُر امید تھا۔ مجھے اپنی صلاحیتوں، محنت اورخصوصاً اللہ تعالی پر یقین تھا۔ میں اس وقت ۲۶؍سال کا نوجوان تھا۔ اس دور میں برطانیہ کاٹکٹ اٹھارہ سو روپے ہوتا تھا جو میں نے بڑی مشکل سے مانگ تانگ کر پورا کیا۔میں گلاسکو پہنچا تو ان دنوں وہاں پاکستانیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ موسم بہت سرد تھا۔ وہاں ایک کمرے میں میرے چھ دوست رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں روزانہ ملازمت کی تلاش میں نکل جاتا۔روزگار کے مواقع محدود تھے۔پاکستان میں بیوی اور چند ماہ کے ایک بیٹے کو چھوڑ کر آیا تھا۔ پاکستان میں میری تنخواہ بھی معقول تھی۔لیکن معاشی ترقی کا خواب مجھے دیار غیر لے آیا تھا۔

مجھے اپنی باری پر دوستوں کے لیے کھانا بنانا پڑتا اور کمرے کی صفائی بھی کرنی پڑتی۔ بہر کیف مجھے جلد ہی بس میں کنڈیکٹر کی نوکری مل گئی۔ میری پہلی تنخواہ سات پائونڈ ہفتہ تھی۔ محنت کرنے سے میں کبھی نہیں گھبرایا۔ میں نے پیسے کمانے کے لیے اضافی وقت میں بھی کام کیا۔ مقررہ آٹھ گھنٹے کام کے بعد ایک گھنٹہ آرام کر لیتا اور جس بس کا کنڈیکٹر چھٹی پر ہوتا، اس کی جگہ کام کرنے لگتا۔

میں نے انتھک محنت کی، اس لیے جلد ہی مجھے بس کا ڈرائیور بنادیاگیا۔ان دنوں وہاں مقیم پاکستانیوں کی ایک تنظیم جمعیت اتحاد المسلمین تھی جو فلاح و بہبود کا کام کرتی تھی۔ اس کے الیکشن ہورہے تھے او ر صدر کے عہدے کے لیے فتح شرف امیدوار تھے۔ میں اور چوہدری نذیر ان کے پاس گئے اور اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔ وہ ہماری کوششوں سے الیکشن میں صدر منتخب ہوگئے۔ تب میری ان سے دوستی ہوگئی۔ وہ ان پڑھ تھے۔ لیکن ان کی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ ۱۹۳۳ء میں گلاسگو گئے تھے۔ان کا تمباکو اور کپڑے کا ہول سیل کا کاروبار تھا۔

انہیں ایک محنتی اور ایماندار ساتھی کی ضرورت تھی۔ پاکستانی کمیونٹی میں میرا تعارف ایک محنتی اور فرض شناس فرد کے طور پر تھا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم کارپوریشن سے جتنی تنخواہ لیتے ہو، مجھ سے لے لیا کرو اور میرے کاروبار کو سنبھال لو۔میں نے ملازمت کا آغاز کردیا۔ روپے پیسے کا سارا لین دین میرے ذریعے ہوتا۔ فتح شرف نے میری ذہانت اور دیانت کو کئی بار آزمایا۔ بینک میں جتنی رقم جمع کرانا ہوتی، اس سے زیادہ مجھے دے کر بھیج دیتے۔ میں زائد رقم انہیں واپس کر دیتا۔ میری صلاحیتوں سے مطمئن ہوکر فتح شرف صاحب نے کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لیے کپڑا بنانے والی چار مشینیں بھی لگا لیں۔ انہی دنوں مجھے ایک پاکستانی، محمد ارشد نے اسٹور میں حصہ دار کی حیثیت سے کام کرنے کی پیش کش کی۔ میں نے فتح شرف صاحب سے بات کی تو انہوں نے مجھے کہا کہ کاروبار کے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں، تم حسب ضرورت خود ہی لے لیا کرو ۔ لیکن مجھے تم جیسے ایماندار ،محنتی اور مخلص ساتھی کی ضرورت ہے۔

کچھ اسی طرح کا اصرار محمد ارشد صاحب کا بھی تھا۔ ان کا بہت بڑاا سٹور تھا اور وہ میری انتظامی صلاحیتوں کے بے حدمعترف تھے۔ انہوں نے مجھے چالیس پائونڈ ہفتہ معاوضہ،ملازمت اورا سٹور میں حصہ دار بننے کی پیش کش کی میں نے فتح شرف سے بات کی۔ انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ محمد ارشد کے ایک دوست اکرم بھٹی بھی کاروبار میں شامل ہوگئے۔ یوں اس اسٹور میں ہم تینوں حصہ دار بن گئے۔ میں نے اسٹور چلانے اور وسعت دینے کے لیے دن رات ایک کر دئیے۔ میری کوششوں سے اسٹور نے خوب ترقی کی۔ چار سال کے عرصے میں ایک اسٹورسے چارا سٹور بن گئے۔

ایک روز ارشد نے مجھے کہا کہ میں اب کاروبار ختم کرکے آرام کرنا چاہتا ہوں۔ تم اسٹور خریدنا چاہتے ہو تو خرید لو۔بھٹی صاحب نے بھی کہا کہ میں اپنا حصہ نکالنا چاہتا ہوں۔میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ دونوں کو ان کے حصے کے پیسے دیتا۔ میں نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے قرض دے دیا۔ ان میں چوہدری نذیر اور فتح شرف بھی تھے۔ اب میری عملی زندگی کا دور شروع ہوا میں نے اپنی بیوی کو ڈرائیونگ سکھائی۔ وہ سکاٹ لینڈ میں موجود دوسری پاکستانی خاتون تھی جس نے ڈرائیونگ سیکھی۔ وہ میرا ہاتھ بٹانے لگی۔ صبح بڑی سڑک پر بچوں کو اسکول چھوڑتی پھر ہول سیل مارکیٹ سے سامان خریدتی اور تمام ا سٹوروں پر پہنچاتی۔ میں اسٹوروں پرکام کرتا۔ یوں ہم دونو ں میاں بیوی نے تقریباً بیس سال تک مسلسل محنت کی اور اللہ کے فضل سے پورے گلاسگو میں ہمارے سات بڑے ا سٹور بن گئے جہاں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی۔

میں نے جوکچھ کمایا، دوبارہ کاروبار میں لگایااور مزید ترقی کی۔ میں نے روپے پیسے کوکفایت سے استعمال کیا اور کبھی فضول خرچی نہیں کی۔جب بڑا بیٹا کاروبار میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہوگیا تو میں نے بیگم کو کہا، اب تم آرام کرو، تم نے برسوں میرا ہاتھ بٹایا ہے۔ میں نے اسٹور کے ساتھ فرنیچر کی ایک بہت بڑی دکان بھی بنالی وہاں پاکستانی کھانوں کا ایک ریستوران بھی کھول لیا یہ ریستوران خوب چلتا۔ وہاں ہم نے سیاحت اور سٹوڈنٹ ویزہ پر آنے والے پاکستانیوں کو روزگار کمانے کے مواقع فراہم کر رکھے تھے۔ ایک دن میں ریستوران میں موجود تھا، اچانک امیگریشن کا عملہ پولیس کے ساتھ آگیا۔ اس نے چاروں طرف سے ریستوران کو گھیر لیا۔ وہ غیر قانونی لوگوں کو پکڑنے آئے تھے۔

جب امیگریشن کا افسر ریستوران میں داخل ہوا تو مجھے دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ پورے گلاسگو میں خدمت خلق کے حوالے سے میری پہچان تھی۔اس نے مجھے کہا کہ مجھے یقین ہے، ملک غلام ربانی کوئی غیر قانونی کام نہیں کر سکتا، لہٰذا اس نے پولیس اور اپنے عملے کو واپس بھیج دیا۔ یوں اللہ نے میرا بھرم رکھ لیا۔ میں جرمانے سے، جب کہ روزگار کمانے کے لیے آئے پاکستانی برطانیہ میں قید اور وطن واپسی سے بچ گئے۔

میں نے سوچا، یہ لوگ مجھ پر اتنا اعتماد کرتے ہیں تو مجھے بھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔ لہٰذا میں نے اپنا نہایت منافع بخش ریستوران اونے پونے فروخت کر دیا۔ پھر چند گھر خرید کر کرائے پر دے دیئے۔کچھ عرصے کے بعد میں نے ا سٹور فروخت کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں مجھے بہت وقت دینا پڑتا تھا جب کہ گلاسکو میںمیری سماجی فلاح و بہبود کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔

خدمت خلق میری گھٹی میں شامل ہے۔ ہمارے گھر کے ساتھ مسجد تھی۔ اس دور میں لوگ دور دراز کے سفر پیدل کیا کرتے تھے۔ اور دیہات کی مساجد میں قیام کرتے تھے۔ ہمارا گھر مسجد کے ساتھ تھا۔ میری والدہ ہمیں اپنے کھانے میں سے مسافروں کو کھانا کھلانے کی تلقین کیا کرتی تھی۔ لہٰذا گلاسکو آنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی میں نے سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان دنوں وہاں جمعیت اتحاد المسلمین نامی تنظیم کام کررہی تھی۔ پھر ہم دوستوں نے سوشل اینڈ کلچرل سوسائٹی بنائی۔جمعیت اتحاد المسلمین کے تحت ہم پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے۔

سوشل اینڈ کلچرل سوسائٹی کے تحت ہم نے پاکستانی ثقافت کو فروغ دینے او ر باہمی رابطے کا انتظام کیا۔ اس ادارے کے پلیٹ فارم سے سکاٹ لینڈ میں ہر ہفتے پاکستانی فلم چلانے کے علاوہ مشاعرے اور دیگر تفریحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ یوں پاکستانیت کو فروغ ملا اور پاکستانیوں کو پاکستان کی خدمت کرنے پر مائل کیا۔
۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر ہم نے پاکستان میں رقم بھجوانے کے لیے ایک کیمپ لگایا۔لوگوں کے گھروں اور دفاتر میں جاکر میں نے انہیں قائل کیا کہ وطن کو اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے پورے مہینے کی تنخواہیں بھی جمع کروا دیں۔

گلاسکو میں کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ باجماعت نماز کے عارضی انتظامات تھے۔ ہم نے جمعیت اتحادالمسلمین کے پلیٹ فارم سے ایک جامع مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت سے ہمیں شہر کے مرکز میں دریا کے کنارے تین ایکٹر قطعہ اراضی مل گیا۔ حکومتی شرط کے مطابق ہمیں چار سال کے اندر مسجد کو مکمل کرنا تھا۔ ہم نے تمام پاکستانیوں کو متحرک کیا خصوصاً خواتین نے فنڈ ریزنگ میں بھرپور کام کیا۔

میں ان دنوں جمعیت اتحادالمسلمین کا نائب صدر تھا۔ ۱۹۸۱ء میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ ۱۹۸۴ء میں یہ مسجد تعمیر ہوگئی۔ یہ مسجد تعمیراتی فن کا اعلی نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر پر اس وقت کے تقریباً ۳۰؍کروڑ پاکستانی روپے خرچ ہوئے۔ اس کے بعد مزید مساجد بھی تعمیر ہوئیں۔ اس وقت گلاسگو میں سترہ مساجد ہیں۔
افغان مجاہدین کے لیے ہم نے عطیات جمع کیے اور اس وقت تقریباً تین کروڑ روپے لے کر میں پاکستان آیا یہاں افغان مجاہدین میں یہ رقم خود تقسیم کرکے گیا۔
جنرل(ر) جہانداد نے اپنی جائیداد الشفاء ہسپتال کے لیے وقف کی۔ وہ اس ادارے کے لیے فنڈریزنگ کرنے کے لیے برطانیہ آئے تو ہم نے انہیں کروڑوں روپے کے عطیات جمع کرکے دیئے۔ وہ کئی سال تک مسلسل اس مقصد کے لیے گلاسکو تشریف لاتے رہے۔

عمران خان نے کینسر ہسپتال کا آغاز کیا تو ہم نے کینسر ہسپتال کے لیے بھی عطیات جمع کرکے دیئے۔ ابرار الحق کے ادارے سہارا فار لائف ٹرسٹ کے لیے بھی عطیات جمع کیے۔
جب کارگل کی جنگ کے دوران بھارتیوں نے امریکی اور برطانوی اخبارات میں پاکستانی فوج کے توہین آمیز اشتہارات شائع کرائے تو مجھے بہت رنج ہوا۔ میںنے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس اشتہار کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے عطیات بھی جمع کیے اور پاکستانی کونسل خانہ سے بات کی مگر ہمیں یہ کہہ کر جوابی اشتہارات شائع کرنے سے روک دیا گیا کہ اس طرح ایک لاحاصل سلسلہ شروع ہوجائے گا۔بہرکیف میں نے اپنے جذبات کا اظہار گلاسکو اور اس وقت کے حکومتی عہدیداران سے بھی کر دیا بلکہ میری تنقید سے اس وقت کے برسراقتدار سیاستدان ناراض بھی ہوگئے۔

پاکستان میں جب بھی کبھی کوئی مصیبت کی گھڑی آئی ہم نے دل کھول کر عطیات فراہم کیے۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے اور۲۰۱۰ء کے سیلاب کے دوران بھی ہم نے کروڑوں روپے جمع کیے۔ میں نے اپنی نگرانی میں سیلاب متاثرین کو گھر تعمیر کروا کر دئیے۔

میں نے آٹھ سال قبل تمام کاروباری معاملات اپنے بیٹے اور پوتے کی سپرد کر دیئے اور خود کو گلاسگو اور پاکستان میں خدمت خلق کے لیے وقف کردیا۔ ۷۸؍سال کی عمر میں بھی ایک نوجوان کی طرح متحرک اور پرجوش ہوکر خدمت خلق کے امور نبھاتاہوں۔ میری سماجی خدمات کے اعتراف میں پاکستانی کمیونٹی نے بابائے ا من اور کنگ آف گلاسگوکے خطابات سے نواز رکھا ہے۔ جب کہ حکومت برطانیہ نے سماجی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ شہری اعزاز ممبر برٹش ایمپائرعطا کیا ہے۔حکومت پاکستان نے بھی میری خدمات کے اعتراف میں ستارہ خدمت عطا کیا۔ میری یہ عزت افزائی اور شہرت خدمت خلق کا انعام ہے۔