سابق چیف جسٹس کے گھر ڈاکہ.... سسٹم اور پولیس

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 12, 2017 | 08:37 صبح

 

”میرے گھر ڈاکہ پڑ گیا“!۔ جس نمبر سے کال آئی وہ میرے موبائل میں فیڈ نہیں تھاتاہم آواز اور لہجہ سے پہچاننے میں ایک لمحہ بھی نہیںلگا۔ ڈاکے چوریاں ہمارے ہاں معمول ہیں مگر جس شخصیت کے ساتھ یہ ہاتھ ہواوہ معمولی نہیں۔انکا دوسرا جملہ تھا۔ ”زیادہ نقصان نہیں ہوا، پریشانی کی بات نہیں ہے“۔ وہ گویا مجھے تسلی دے رہے تھے۔ انکے لب و لہجے سے بھی کوئی پریشانی نہیں تھی مگر انکے کرب کا اندازہ مجھے بخوبی ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ۔” رات کے آخر

ی پہر بیڈ روم میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو پوچھا کون ہو، میں سمجھا شاید ملازم ہے مگر جواب آیا ہم ڈاکو ہیں، پیسے لینے آئے ہیں“۔ اس دوران میں بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ”کتنے آدمی ہو“۔ انکے چار کہنے پر میں نے پرس اٹھایا اس میں سے پانچ پانچ سو کے چار نوٹ نکال کر ان کو دیتے ہوئے کہا۔” یہ لو پیسے اور اب جاﺅ“۔ انہوں نے کہا ۔”ہم پورے گھر کی تلاشی لیں گے“۔ یہ عمل انہوں نے پندرہ بیس منٹ میں مکمل کر لیا مگر انہیں کچھ بھی نہ ملا تو مجھ سے نقدی کا مطالبہ کیا۔ میںنے بٹوے کی طرف اشارہ کیا جس میں مزید آٹھ ہزار روپے تھے انہوں نے وہ نکالے اور چل دیئے۔جاتے ہوئے قیمتی گھڑی لے گئے جس کی مالیت 45 ہزار روپے تھی ۔ جس ڈاکو نے سینے پر گن تان رکھی تھی اس سے پانی مانگا تو اس نے پلا دیا۔ اس دوران میرے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔ چاروں کی عمریں 20 سے 25 سال، رنگ گندمی اور ایک کی چھوٹی داڑھی تھی۔ ان کے جانے کے دس منٹ بعد ہاتھ کھولے گئے۔ ملازم کے بھی ہاتھ باندھ گئے تھے“۔ یہ معمولی اور معمول کا واقعہ غیر معمولی اور معمول سے ہٹ کر اس لئے ہے کہ یہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ارشاد حسن خان کے ساتھ پیش آیا۔ وہ تین سال چیف الیکشن کمشنر اور صدر جنرل پرویزمشرف کی غیر موجودگی میں پاکستان کے متعدد بارقائمقام صدر بھی رہے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ جوہر ٹاﺅن میں ڈاکٹرز ہسپتال کے قریب ہے۔ گھر کے باہر پولیس گارڈز کاٹنٹ ان کی حفاظت کیلئے لگایا گیا ہے۔ اس رات بھی پولیس موجود تھی۔جسٹس صاحب کی اہلیہ محترمہ کا تین سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ بیٹے بیٹیاںسمندر پار یا دوسرے شہروں میں مقیم ہیں۔ یہ گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔ اسی سال عمر ہے تاہم چاق و چوبند، سمارٹ اور مکمل فٹ ہیں۔ ڈکیتی کی خبر انکے احباب، ججز اور وکلاءحلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے فون کر کے افسوس کا اظہار، سلامت بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس معاملے میں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ جسٹس صاحب نے ایک پولیس اہلکار اور ایک ملازم پر شک کا اظہار کیا جو ایک ہفتے سے پولیس کی حراست میں ہیں مگر وہ پولیس جس کے بارے میں کہا جاتا ہے اسے واردات سے بھی قبل واردات کا پتہ ہوتا ہے، کچھ نہیں کر سکی۔ جسٹس ارشاد حسن خان کو وہی پھولوں سے سجا اور زندگی کی ہر آرائش سے بھرا گھر اس اندوہناک واقعہ کے بعد کھانے کو دوڑتا ہے۔ اس خوف کی فضاءسے نجات کیلئے وہ اپنی بیٹی کے ہاں کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ پولیس میں بلاشبہ کالی بھیڑیں ہیں، شاید یہ اکثریت میں بھی ہوں مگر اسی پولیس میں اپنے فرض پر جان نچھاور کرنے والے سپوت بھی ہیں۔ پاکستان آزاد عدلیہ اور خودمختار پولیس کے باعث مثالی ریاست بن سکتا ہے۔ عدلیہ نے آزاد خود ہونا ہے اور پولیس کو ریاست نے خودمختار بنانا ہے۔ عدلیہ آزاد ہے مگر کھلے فیصلے کرنے کے بجائے گھٹ کر فیصلے کرنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔ یہ الگ طویل اور بحث طلب موضوع ہے۔ ضرورت پولیس کو ملک و معاشرے میں قانون کی عملداری کیلئے وہ اختیارات منتقل کرنے کی ہے جو سیاسی ذہنیت نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ حکمران ایلیٹ اگر پولیس کو با اختیار بنا دے تو شاید مقتدر کلاس کے گھر سے بھی جرائم پیشہ عناصر پکڑے جائیں تاہم پورے ملک سے لاقانونیت اور جرائم کا خاتمہ ضرورہو جائیگا جو کسی بھی حکومت کیلئے سب سے بڑا کریڈٹ اور طویل ترین اقتدار کا ضامن ہو سکتا ہے۔ سردست ایسا امکان نظر نہیں آتا ۔لوگ سخت تنگ اور بیزار ہیں۔ بے بس اور بے کس ہیں، کچھ نہیں کر سکتے، سوائے بددعاﺅں کے، جو عرش کے کنگرے ہلا دیتی ہیں مگر ہمارے اپنے اعمال ایسے ہیں کہ دعائیں اور بددعائیں عرش و فرش کے درمیان کہیں معلق ہو جاتی ہیں۔

میرے ایک دوست ملک فاروق 19گریڈ میں ہیں، وہ پاگل پن سے باہر نکلنے پر تیار نہیں ۔ ناجائز کام ہونے نہیں دیتے۔ جائز کام میں تاخیرنہیں کرتے۔ رشوت اور سفارش ماتھے سے دُکھتی ہے۔ ایک ایم این اے انکے پاس آئے فائل فارورڈ کرنے کو کہا تو اس کیلئے جو مطلوبہ ریکوآئرمنٹ تھی اس سے آگاہ کر دیا۔ حکومتی ایم این اے ہونے کا زعم تھا۔ اپنی حیثیت جتلائی اور کہا تم مجھے نہیں جانتے۔ ان کو بڑے ادب سے جواب دیا۔ آپ جتنے بھی بڑے،میں جتنا بھی چھوٹا ہوں، اللہ نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے۔بہرحال ان کیساتھ اخلاقیات کا مظاہرہ کیا، چائے پلاکر ماحول سے تلخی دورکی اور میرٹ پر کام کرنے کا یقین دلایا۔ وہ مطمئن ہو کے جانے لگے تو حرف آخر کے طور پر عرض کی۔ ”اگر سسٹم درست ہوتا تو آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہ پڑتی سب کچھ خودکار طریقے سے ہو جاتا“۔

ہم جس حیثیت میں جہاں بھی ہیں اپنا اپنا کام کریں تو سسٹم درست ہو سکتا ہے۔جسٹس ارشاد حسن خان چیف جسٹس پاکستان رہے، ان کو پتہ ہو گا کہ انہوں نے سسٹم کو درست کرنے یا رکھنے میں کیا کردار ادا کیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ جبر کے دور میں اس عہدے تک پہنچے تھے۔ آج پاکستان میں انکے لیول کا ایک بھی شخص نہیں۔ تھری ان ون؛ وہ پاکستان میں ایک ہی ہیں۔ چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشن کمشنر اور اورایکٹنگ صدر پاکستان۔ انکے ساتھ ڈکیتی ہو سکتی ہے تو آج کی مقتدر اور ایلیٹ کلاس یاد رکھے ایسا مستقبل میں جب ان کا درخشندہ حال، ماضی بن چکا ہو گا، انکے ساتھ زیادہ آسانی سے ایسا ہو سکتا ہے۔ آج آپ نظام درست کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو کرنے کی مصلحتوں، دباﺅ اور خوف سے بالاتر ہو کر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ اپنا مستقبل محفوظ بنائیں اور تاریخ میں نام پیدا کریں۔