عرضِ مکرر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 19, 2017 | 07:31 صبح

یہ دمشق کے شہدا ء چوک کی 18 مئی 1965ء کی روشنیوں میں نہائی نصف شب ہے۔ ٹھاٹھیں مارتا ہجوم، جشن کا سماں ہے۔ ہر آنکھ چوک کے مرکز پر جمی ہے۔ یہاں عارضی پھانسی گھاٹ بنایا گیا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہورہی ہیں۔ بالآخر 3 بجکر 35منٹ پر ایک شخص کو کھینچتے ہوئے وہاں لایا جاتا ہے۔ ماہر جلاد نے فرض کی بجا آوری میں صرف دو منٹ لگائے۔ یہ اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن تھا۔ ایلی نے بزنس مین کی حیثیت سے شام کے تجارتی حلقوں، حساس اداروں اور ایوان صدر تک رسائی حاصل کی‘ اسکی کابینہ کے ارکان اور جرنیلوں کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ صدر امین الحافظ کے وہ اتنا قریب تھا کہ صدر نے اسے وزیر دفاع بنانے کی پیشکش کی۔ صدر اسکی حب الوطنی، اہلیت اور قابلیت سے اس قدر متاثر تھا کہ اسے اپنا جانشین بنانے پر بھی غور کیا۔ ایلی کوہن کی جاسوسی کے باعث اسرائیل نے محض پانچ دن میں شام کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ پکڑا گیا تو صدر امین الحافظ نے دنیا کا ہر دبائو اور اسرائیل کی ایلی کے بدلے شام اور فلسطین کے جاسوسوں سمیت تمام قیدی رہا کرنے کی پیش کش مسترد کردی۔ ایلی کوہن کی لاش بھی شام نے واپس نہیں کی، وہیں دفن ہے۔ ایلی کوہن پکڑا گیا ورنہ وہ وزیر دفاع اور شام کا صدر بن گیا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کسی ملک میں ایسے جاسوس یا ایجنٹ اعلیٰ ترین منصب پر پہنچے بھی ہوں یہ کسی اور صورت میں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

سویت یونین میں خفیہ ادارے کے جی بی کو اپنے ایک اہم وفاقی وزیر پر امریکہ کیلئے جاسوسی کرنے کا شک تھا، تمام تر کوششوں کے باوجود کے جی بی اپنے وزیر کیخلاف ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ سویت یونین ٹوٹ گیا۔ کے جی بی کو تحلیل کر دیا گیا۔کچھ عرصہ بعد کے جی بی کا سابق سربراہ امریکہ میں پرآسائش زندگی گزارنے والے اس اہم وزیر کے محل نما گھر پہنچا جس پر امریکی جاسوس ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ اس نے سابق سویت وزیر سے درخواست کی کہ اب جبکہ سویت یونین کا خاتمہ ہو چکا ہے‘ کے جی بی کا وجود بھی نہیں رہا جبکہ اسکی امریکہ میں شان و شوکت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس پرکیا جانیوالا شک درست تھا تو وہ بتائے کہ امریکہ کیلئے کس طرح کی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے؟سابق سویت وزیر نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا ’’وہ صرف نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا کرتا تھا تاکہ ’’بیڈ گورنس‘‘ کا چلن عام ہو۔

امریکی خوبرو صحافی اپنی کتاب (The Taliban Shuffle) میں جناب نواز شریف سے اپنی ملاقاتوں کااحوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے ’’زندہ گرفتار ہونیوالے دہشت گرد نے بھارتی حکام کوبتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے گائوں فرید کوٹ سے ہے۔ پنجاب میں فریدکوٹ نام کے کم از کم تین گائوں موجود تھے لیکن مجھے بھوت پریت اورانکے سایوں کا تعاقب کرنے کاکوئی شوق نہیں تھا کہ فرید کوٹ کی تلاش میں خاک چھاننی پھرتی، میں جلدازجلد براہ راست اصل فرید کوٹ پہنچنا چاہتی تھی جس کیلئے مجھے لامحالہ لاہور جانا تھا جہاں میں لشکر طیبہ کے فلاحی ادارے کادورہ بھی کرنا چاہتی تھی۔ بھارتی اور امریکی حکام کے مطابق یہ ادارہ لشکر کاعوامی چہرہ تھا جس پر ممبئی حملوں کاالزام لگایاجارہا تھا۔۔۔مجھے یقین تھا کہ اصل فرید کوٹ کا پتا مجھے صرف اور صرف نواز شریف ہی بتاسکتے ہیں۔ ایک دوپہر ہم لاہور کے نواح میں واقع نواز شریف کے سرسبز وشاداب محل میں پہنچ گئے۔جناب نواز شریف نے مجھے ضلع اوکاڑہ والے اصل فرید کوٹ کے بارے میں بتایا۔ نوازشریف نے انکشاف کیاکہ ’’گرفتار ہونیوالے لڑکے اجمل قصاب کا تعلق اوکاڑہ کے گائوں فرید کوٹ سے ہے جو کئی سال پہلے گھر سے غائب ہو چکا تھا‘‘ یہ خبر ہمارے لئے دھماکہ خیز تھی کیونکہ نوازشریف جیسا اہم پاکستانی ان الزامات کی تصدیق کررہاتھا جس کی حکومت پاکستان کھلے عام تردید کررہی تھی۔ ایک اور گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کم بارکر کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے مجھے ایسا آئی فون لے کر دینے کی پیشکش کی جو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی دسترس سے دور ہو۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اعتراف کیا ہے کہ منتخب سویلین قیادت صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اجازت سے انہوں نے پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کیلئے سی آئی اے کے اہلکاروں کو ویزے جاری کئے تھے۔ ان اہلکاروں نے پاک فو ج کے علم میں لائے بغیراسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد کی‘‘ ۔ حسین حقانی کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہے وہ اپنے وطن کیلئے ہماری طرح ہی خیر خواہ ہیں،اپنے وطن کے! انکا وطن امریکہ ہے۔

 دومئی 2011ء‘ ایبٹ آبادآپریشن کے دوسرے روز 3 مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کی

ہلاکت کے بارے میں شائع کی جانے والی کی خبروں کے ساتھ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا انٹرویو بھی شائع ہوا جس کی شہ سرخی تھی ’’اسامہ کی موت عظیم فتح ہے۔ہمارا انٹیلی جنس تعاون شامل تھا‘‘۔ تین مئی منگل کو واشنگٹن پوسٹ میں صدر زرداری کا راتوں رات لکھا گیا آرٹیکل شائع ہوتا ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے۔ ہم پاکستان میں اس بات پر مطمئن ہیں کہ القاعدہ کے ایک کورئیر کی شناخت میں ہماری معاونت کی وجہ سے آج کے دن تک پہنچنے میں مدد ملی تھی''۔

پاکستانی میڈیا میں مارچ 2010ء میں صدر آصف علی زرداری کی سفارش اور زرداری ہاؤس دبئی کے حکم پر صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں دبئی کے پاکستانی قونصلیٹ سے ڈیڑھ سو ہندوستانیوں اور چھیاسی امریکیوں کو پاکستان کے ویزے جاری کرنے کے اسکینڈل کا انکشاف کیا گیا۔ان میں ایک امریکی مرد کے علاوہ چھ ایسی مشکوک امریکی خواتین بھی شامل ہیں،جنہوں نے ویزا فارم میں اپنے دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر یا زرداری ہاؤس کا وزٹ ظاہر کیا۔خبر میں ان خواتین کے پاسپورٹ نمبر بھی دئیے گئے تھے۔ اسی طرح 26 مارچ 2010ء کو تین اور امریکی خواتین جن میں دو بنیادی طور پر یوکرائن نژاد ہیں،کو بھی پاکستان کے تین ماہ کے ملٹی پل ویزے جاری کئے۔ مسز انجیلک اے ویکٹوریا نے بھی اپنے ویزے فارم میں اپنے دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر اسلام آباد کی وزٹ تحریر کیا۔‘‘ اس وقت کے پاکستان قونصل جنرل امجد علی شیر مہمند نے انکوائری کے دوران تمام سنگین الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں مشکوک امریکی اور بھارتی باشندوں کو ویزے جاری کرنے پر اس وقت کے صدر آصف زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی مجبور کرتے تھے دبائو ڈالتے تھے۔امجد علی شیر مہمند کا تحریری بیان وزارت خارجہ کی فائلوں میں محفوظ پڑا ہے جبکہ دبئی قونصلیٹ کے ویزا افسر نے بھی تحریری جواب میں قونصل جنرل کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے ایوان صدر اسلام آباد کے بے پناہ دبائو کا ذکر کیا تھا۔