پرل ہاربر... انڈین جارحیت ....کالم نگار فضل حسین اعوان....شفق

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 28, 2016 | 07:38 صبح

جاپانی شاہی بحریہ کے پہلے ہوائی بیڑے کی جانب سے 7 دسمبر 1941ء کو امریکہ کے جزائر ہوائی میں پرل ہاربر کے بحری اڈے پر حملہ کیا گیا جس کا مقصد دوسری جنگ عظیم کے دوران بحرالکاہل میں امریکی فوج اور بحریہ کے بیڑے کو بدستور غیر جانبد

ار رکھنا تھا مگر یہ حملہ جاپان کی بدترین اور ذلت آمیز شکست کی بنیاد ثابت ہوا۔ اس حملے میں جاپان کے 6 طیارہ بردار بحری جہازوں سے اڑنے والے 353 طیاروں نے حصہ لیا۔ حملے میں امریکہ کے 8 بحری جہاز تباہ ہوئے اور 9 کو شدید نقصان پہنچا۔ 188 طیارے مکمل طور پر بے وجود ہو گئے جبکہ 2403 امریکی فوجی اور 68 شہری ہلاک ہوئے۔

اس حملے سے امریکہ کو جنگ عظیم دوئم میں کودنے کا موقع ملا، یوں جنگ کا پانسا اتحادیوں کے حق میں پلٹ گیا۔ یہ معرکہ تاریخ کو بدلنے والے واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح اور امریکہ کا ایک غالب عالمی قوت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنا موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا باعث بنا۔

پرل ہاربر کی تباہی کو ربع صدی ہو گئی۔ جنگ عظیم کے زخم صدیوں میں مندمل ہو سکیں گے مگر معاملات معمول پر آرہے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں آج بھی جاپان میں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں، ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ ان اڈوں پر اٹھنے والے اخراجات جاپان سے وصول کرینگے۔ جاپان امریکہ کے ساتھ تلخیوں میں ہوتی کمی کو روکنا یا ان میں اضافہ نہیں چاہتا۔ اس لئے ان دنوں جاپانی وزیراعظم شنزو آبے امریکہ میں ریاست ہوائی کے دورے پر ہیں۔ ہوائی پہنچنے کے بعد شنزو آبے سب سے پہلے قبرستان گئے۔ انہوں نے وہاں موجود یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ یہ ان امریکیوں کی یاد گاریں ہیں جن کا وجود جاپانی بمباروں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ وہ صدر اوباما کی معیت میں بحری اڈے پرل ہاربر کا دورہ کریں گے۔ جاپانی وزیراعظم وہاں مرنے والوں کیلئے خصوصی دعا کریں گے۔ رواں سال امریکی صدر براک اوباما نے ہیروشیما کا دورہ کیا تھا جہاں امریکہ کی جانب سے دوسری جنگِ عظیم میں گرائے جانیوالے ایٹم بم کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ افرد ہلاک ہو گئے تھے۔

دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور کروڑوں انسانوں کے خاک اور خون میں مل جانے کے بعد جب سودوزیاں کے حساب کا مرحلہ آیا تو فاتح اتحادیوں نے جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلائے یہی جرائم ان کی طرف سے بھی سرزد ہوئے تھے چونکہ وہ فاتح تھے اس لئے جاپان اورجرمنی کیلئے جرم ضعیفی کی سزا کا اطلاق ’’طاقت کے قانون‘‘ کا تقاضہ ٹھہرا۔ 18 اکتوبر 1945 اور یکم اکتوبر 1946 کے درمیان بین الاقوامی فوجی عدالت نے سازش کرنے، امن کیخلاف جرائم، جنگی جرائم اور انسانیت کیخلاف جرائم کے الزامات کے سلسلے میں ہٹلر کے بائیس بڑے ساتھیوں کے خلاف مقدمات چلا کر بارہ کو سزائے موت دے دی۔ ان میں ہانس فرینک، ہرمان گوئرنگ، ایلفریڈ روزن برگ اور جولیئس اسٹریخ شامل تھے۔ تین ملزموں کو عمر قید اور چار کو دس سے بیس برس تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ جاپان کے کئی جرنیلوں کو بھی موت کی سزا دی گئی۔ جنرل یاماشیتا نے سنگاپور کے محاذ پر جنرل پرسیول سے ایک لاکھ تیس ہزار فوجیوں سمیت سرنڈر کرایا تھا۔ یاماشیتا کو بھی پھانسی دی گئی۔ اسکی صدر ٹرومین نے رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔

سائمن وائزن تھل اور بیٹ کلارس فیلڈ جیسے نازی مجرموں کا تعاقب کرنیوالوں کی کوششوں کے ذریعے جنگ کے بعد جرمنی سے فرار ہونیوالے بہت سے نازیوں کی گرفتاری، ملک بدری اور اْن کیخلاف مقدمات چلانا ممکن ہو سکا۔ ایڈولف آئخمین کا مقدمہ 1961ء میں یروشلم میں چلا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ایڈولف آئخمین ہولو کاسٹ کے دوران یورپ کی یہودی آبادی کی جلاوطنی کے سلسلے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک تھا۔ جنگ کے اختتام پر آئخمین کو امریکہ میں زیر حراست لے لیا گیا لیکن وہ 1946ء میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ کیتھولک چرچ کے اہلکاروں کی مدد سے وہ فرار ہو کر ارجنٹینا پہنچ گیا جہاں وہ ریکارڈو کلیمنٹ کے نام سے رہا۔ 1960ء میں اسرائیلی سیکورٹی سروس کے ایجنٹوں نے آئخمین کو پکڑ لیا اور وہ اسے مقدمے کا سامنا کرنے کیلئے اسرائیل لے آئے۔ یروشلم میں چلنے والے اس مقدمے کی کارروائی سے بین الاقوامی سطح پر ہولوکاسٹ کے بارے میں دلچسپی بے انتہاء بڑھ گئی۔ 15 دسمبر 1961 کو آئخمین کو یہودیوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے قصوروار پایا گیا۔ اسے 31 مئی اور یکم جون 1962ء کی درمیانی شب پھانسی دے دی گئی۔ یہ واحد واقعہ ہے جب اسرائیل کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔ اْس کی لاش کو جلا کر راکھ سمندر میں بہا دی گئی۔

جس جنگ میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بنے اپاہج ہوئے اور اب تک معذور نسلیں جنم لے رہی ہیں۔ اسکا حتمی نتیجہ جو سامنے آیا وہ ہے ’’صلح‘‘۔ آج پاکستان اور بھارت کے مابین حالات انتہائی کشیدہ ہیں، جنگ کے بادل عموماً چھائے رہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو جنگ یقینی ہے۔ ادھر یا ادھر کسی ایک طرف سے معمولی سی غلطی یا جذباتی قیادت جنگ کے شعلوں کو ہوا دے سکتی ہے پھر یہ الائو سب کچھ جلا کے بجھے گا۔

ایک نہیں کئی شہر ہیرو شیما ناگاساکی بنیں گے۔ کئی اڈے پرل ہاربر بن جائیں گے مگر حتمی نتیجہ کیا ہو گا۔ اگر کوئی بچ گیا تو صلح۔ بھارت اس صورت حال کا آج ہی ادراک کیوں نہیں کر لیتا۔ یہ بھارت کو کون سمجھائے۔ پاکستان میں اس کے حواری اور پروردہ اور پڑوس کے کٹھ پتلی افغان حکمرانوں کی طرف سے بھارت کو درست مشورہ دینے کا امکان اس لئے نہیں کہ ان کا روزگار دائو پر لگ سکتا ہے۔ عالمی طاقتوں کے بھی اپنے اپنے مفاد ہیں۔ امریکہ سمیت ان ممالک کا اسلحہ کیسے بکے گا۔ بھارت کو خود بھی اپنے نفع و نقصان کا ادراک ہونا چاہئیے۔ وہاں کی سیاست کا محور پاکستان دشمنی ہے۔ اس لئے بھارت کی طرف سے ہوش کے ناخن لینے کا امکان نہیں اس لئے اس کا مقابلہ کرنا ہماری مجبوری اور ضرورت ہے۔ اس کی جارحیت پر جواب دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ قانونی طریقہ اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی حکومت کا مسلح طاقت کے استعمال پر اتر آنا۔ ماضی میں اس کی تعریف مختلف شکلوں میں کی جاتی رہی ہے۔ مثلاً اعلان جنگ، حملہ، بمباری، ناکہ بندی اور فوج کی نقل و حرکت، باہمی جھگڑوں کے پر امن تصفیے سے انکار یا بین الاقوامی اداروں کے کہنے کے باوجود جنگ بند کرنے سے گریز۔ یہ تمام کوائف جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل اگر کچھ افراد یا جماعتیں ایسے کام کرتی تھیں جو تسلیم شدہ بین الاقوامی قانون جنگ کے منافی ہوں تو وہ جنگی جرائم متصور ہوتے تھے۔ مثلا مقبوضہ ممالک کے باشندوں یا غیر لڑاکا فوجیوں کا جنگی سرگرمیوں میں ملوث ہونا۔ عارضی صلح ہو جانے کی صورت میں بھی قتل و غارت گری اور متشددانہ کارروائیاں جاری رکھنا یا صلح کے سفیروں پر گولی چلانا جنگی جرائم کے ذیل میں آتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی جنگی ٹربیونل نے جارحانہ جنگ کے منصوبے باندھنا، شہری آبادی کو قتل کرنا، اس سے بدسلوکی کرنا یا غلامانہ مزدوری کرانے کیلئے لوگوں کو دوسرے ملک میں لے جانا بھی جنگی جرائم میں شامل کر دیئے۔

بھارت ایسے جرائم میں سے کئی کا مرتکب ہو چکا ہے۔ اس کو کیوں نہ عالمی عدالت انصاف میں گھسیٹا جائے۔ اس کی گولہ باری سے جو سویلین شہید ہوئے ان کو معاوضہ دلانے کی کوشش بھی کی جائے۔