جج،جرنیل،جمہوریت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 09, 2017 | 05:14 صبح

ارشاد حسن خان چیف جسٹس آف پاکستان اورچیف الیکشن کمشنر رہے۔ وہ اپنی یادداشتیں دہرارہے تھے،ان کو صدر جنرل ضیاء الحق نے سیکرٹری قانون تعینات کیا تھا۔بعدازاںجنرل صاحب نے غیرجماعتی الیکشن کرائے، جسکے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے۔انکی حکومت نے آٹھویں ترمیم منظور کی جس میں صدر کو

حکومت اور اسمبلی توڑنے یعنی اپنی جان قبض کرنیکااختیار بھی دیدیا۔ججوں کی تقرری کے حوالے سے صدر خود کو پہلے سے زیادہ بااختیار سمجھتے تھے۔ایک دن جنرل صاحب کی طرف سے میٹنگ کا پیغام آیا۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے کہاکہ ججوں کی تعیناتی ترمیم کے بعداب صرف صدرکی صوابدید ہے۔ میں نے کہا کہ آئین کے تحت وزیراعظم کی مشاورت ضروری ہے۔ صدر کا اصرار تھاکہ ’’ وزیراعظم کی ایڈوائس کی اب ضرورت نہیں، آپکے گُرو نے مجھے یہی بتایا ہے‘‘۔ وہ اے کے بروہی کو میرا گُرو کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا یہ ان کا خیال ہو سکتا ہے۔لیکن یہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ آئین کو ایک دفعہ پھر دیکھ لیں۔میں نے اپنے آفس آکر آئین دیکھا اور جنرل صاحب کو فون کر دیا۔ ’’جناب، صدر ججوں کی تقرری میں وزیراعظم سے ایڈوائس کا پابند ہے‘‘۔ جنرل صاحب نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے،اب صدر کو کسی کی ایڈوائس کی ضرورت نہیں،بروہی درست آپ غلط کہتے ہیں۔ میں صدر کی اس بات پر طیش میں آگیا ، دوٹوک الفاظ میں کہا ’’میں آئین کی بات کر رہا ہوں۔میں ریاست کو بحران میں مبتلا کرنے میںپارٹی نہیں بن سکتا،اپنی رائے پر قائم ہوں‘‘۔جنرل ضیاء کو غصہ آتا تو زوردار قہقہہ لگاتے تھے، انہوں نے زوردار اور طویل قہقہہ لگایا۔ اسکے بعد جہاں کہیں بھی ملے، میرا جواب ضرور باور کراتے مگر کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ جب جونیجو حکومت کو توڑا گیا،میں نے استعفیٰ دیا تو جنرل ضیاء نے باوقار انداز میں مستعفی ہونے کاموقع دیا۔

پانامہ معاملہ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہونے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ گیا جس کا فائنل حل شاید یہاں سے بھی دستیاب نہ ہوسکے۔ اس دوران پارلیمنٹ نے معاملہ بظاہر سدھارنے اور سلجھانے کی کوشش کی،نیت شاید الجھانے اور معمہ بنانے کی ہو۔خورشید شاہ کی سربراہی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی نے تحقیقات کیلئے پی اے سی کا اجلاس بلایا۔اسکے روبرو سیکرٹری قانون کرامت نیازی ’’ وکھی‘‘ سے بولے ‘ کہا کہ پی اے سی کو اس معاملہ میں بات کرنیکا اختیار ہی نہیں ہے۔چیئرمین ایف بی آر نے کہایہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ نیشنل سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کے چیئرمین ظفر حجازی گویا ہوئے یہ ہمارے بس کا کام نہیں ۔گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ کہہ کر دامن بچانے کی کوشش کی کہ بینک تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتا۔یہ اعلیٰ عہدیدار کس برتے پر پارلیمنٹ کے سامنے حقائق رکھنے کے بجائے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ایمانداری سے رائے دینے پر جنرل ضیاء نے جسٹس ارشاد حسن خان کو کھانہیں لیا تھا۔سچ بولنے پر بیوروکریٹس کے بچوں کی روٹی نواز شریف نہیں کھا جائینگے۔نادرا سے نکالے گئے چیئرمین طارق ملک کیا فاقے سے مرگئے ہیں؟

جسٹس ارشاد حسن خان نے بطور چیف الیکشن کمشنر 2002ء کے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا تو جنرل حامد جاوید جو صدر جنرل پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف تھے کا فون آیا۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے مزید چند دن دینے کی بات کی۔جسٹس صاحب کہتے ہیں، میں نے کہا کہ اب شیڈول میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اسکے بعد سوچا کہ دوچار دن آگے پیچھے کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتااس کا حکومت کو کوئی فائدہ بھی نہیں۔ میں نے سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کی‘ ان میں نوابزادہ نصراللہ، امین فہیم، پیر پگاڑہ، راجہ ظفرالحق بھی شامل تھے۔ سوائے راجہ ظفرالحق کے سب نے اتفاق کیا۔ میں نے اکثریتی رائے کے پیش نظر چند دن کی توسیع کر دی۔ ایک دن صدرکیساتھ میٹنگ کا فون آیا۔ میں وہاں گیا تو جنرل حامد جاوید بھی بیٹھے تھے۔ جنرل مشرف نے کہا کہ جسٹس صاحب! کیا آپ پر کسی کا دبائو ہے؟ آپ سے جب ہم نے شیڈول تبدیل کرنے کو کہا تو آپ نے انکار کردیاکیا اب کسی کے زیر اثرایسا کیا؟ ان کا اشارہ میاں نوازشریف کی طرف تھا جن کو پیپر فائل کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ جنرل نے میرے کسی کے زیر اثر ہونے کی بات کی تو مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے کہا۔

Sir, you are wearing a uniform and holding gun in hand if I m not in your influence, how can be in influence of any body else.

اگر آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں تو ابھی کاغذ دیں،میں استعفیٰ دیتا ہوں،بتائیں،اعتماد ہے یا نہیں؟

اس سے آفس میں سناٹا چھاگیااور کشیدگی در آئی تاہم جنرل مشرف کی غلط فہمی دور ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں۔مجھے اپنے زیادہ ہی جذبات سے کام لینے کا بھی احساس ہو گیا تھا۔کشیدہ ماحول کو نارمل کرنے کیلئے میں نے کہا، اونچا بولنے سے میرا گلا بند ہورہا ہے۔ مجھے چائے کی ضرورت ہے۔ جنرل مشرف نے کہا ضرور ضرور۔ میں کہاساتھ سینڈوچ وغیرہ بھی منگوائیں۔ اس سے ماحول خوشگوارہوگیا۔

جسٹس ارشاد حسن خان نے بطور چیف جسٹس اپنا ٹینور پورا کیا،تین سال چیف الیکشن کمشنر رہے ،اس دوران کسی کو اچھا لگا یا برا دیانتداری سے اپنا کام کیا اورایمانداری سے رائے دی جو بعض معاملات میں حکمرانوں بُری لگی لیکن کوئی انکی اور بچوں کی روزی چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہر کسی نے خدا کو جواب اور جان دینی ہے۔یہ عقیدہ راسخ ہو جائے تو ہرطرف جنرل راحیل شریف اور اے ڈی خواجہ جیسے دوٹوک بات کرنیوالے لوگ نظر آئیں۔ جنرل راحیل شریف سے مسلم لیگ ن کی حکومت خائف تھی اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے سندھ حکومت تنگ ہے۔کچھ بیورو کریٹ اور وزراء و مشیرانِ کرام خوشامد کی سیڑھی سے ترقی کے آسمان کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مکھن کا پیڑا ہمہ وقت ہاتھ میں ہوتاہے۔ گورنر سندھ زبیر عمر کو اس سے بڑا اور کیا عہدہ چاہئے۔ فرما رہے ہیں کراچی میں امن کا سو فیصد سہرا وزیراعظم نوازشریف کے سر ہے۔ وزیراعظم کو خوشی سے نہال کرنے کیلئے یہی کافی تھا مگر وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس میں جنرل راحیل شریف کا کوئی کردار نہیں۔ جنرل راحیل عام انسان اور دوسرے جرنیلوں کی طرح جرنیل تھے۔ شاید میاں صاحب کی یہ سائیکی ہے کہ وہ اپنے فضائل پر اتنے خوش نہیں ہوتے جتنے حریفوں کے زرائل سننے پرہوتے ہیں۔انسان تو سب ایک جیسے ہی ہیں کسی کے سر پر سینگ نہیں اُگے ہوتے، تاہم سب جرنیل ایک جیسے نہیں۔ جنرل راحیل کو اے بی سی نیوز پوائنٹ نے دنیا کے دس بہترین جرنیلوں میں پہلے نمبرپر رکھا ہے۔جنرل راحیل کو سعودی عرب اسلامی نیٹو افواج کا کمانڈر بنا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اجلاس میں ان کیلئے اپنے برابر کرسی لگواتے تھے؟؟؟ جنرل باجوہ کیلئے ایسی کرسی نہیں رکھی جاتی۔ جرنیل کی ریٹائر منٹ کے بعدکیڑیوں کو بھی پَر لگ گئے ،بکریاں شیر بن گئیں۔؎

آگئی خا ک کی چٹکی کو پرواز ہے کیا؟

آج کا کالم بوجھل سا ہے آخر میں ایک حکایت سن لیں:۔چوہا شراب کے پیپے میں گرگیا،اسے پکڑ کر ٹھرا بنانے والے نے باہر پھینک دیا۔اس دوران اسے چڑھ چکی تھی،اس نے دُم پر کھڑے ہوکر کہا،اوئے سالو! نکالوباہربلی کو لائو میرے سامنے بلی کو۔