میرٹ اور گورننس… منصف اعظم کی نظر میں...فضل حسین اعوان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 14, 2016 | 12:56 شام

میرٹ اور گورننس… منصف اعظم کی نظر میں...فضل حسین اعوان

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی جا رہے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس ثاقب نثار آ رہے ہیں۔ ادھر جنرل راحیل گئے تو جنرل باجوہ آئے۔ جنرل باجوہ نے عمارت نو ساخت کے مصداق وسیع پیمانے پر جرنیل ہلا ہلا دیئے۔ نئے چیف جسٹس آئیں گے تو وہ بھی اپنے ادارے میں بہتری کے اقدامات کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایسی کوشش انور ظہیر جمالی سمیت ہر چیف نے کی مگر اصلاح کی گنجائش ہنوز موجود ہے۔ انور ظہیر جمالی نے بڑے دکھی دل کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے ڈیڑھ سو سال کی تکمی

ل پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان برائیوں کا ذکر کیا جن کے خاتمے کی قائداعظم نے ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس قائم ہو۔ ایسا صرف اْسی صورت میں ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عملدرآمد ہو۔

پاکستان کو آزاد ہوئے آج 69 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا مگر قائد اعظم نے جن برائیوں کے خاتمے کو حکومتی ذمہ داری قرار دیا حکومتیں اس سے عہدہ براء نہیں ہو سکیں۔ چیف جسٹس کے بقول یہ برائیاں ناانصافی، رشوت ستانی، بدعنوانی اور اقرباء پروری کی صورت میں بدستور موجود ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کہتے ہیں کہ ہم اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لاقانونیت اور دہشتگردی کو فروغ ملا۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اگر ہمیں ایک مہذب قوم بننا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ان تمام برائیوں کو ختم کرنا ہو گا جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ پاکستان کے منصف اعلیٰ یہ بات کرتے ہیں تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں مگر افسوس ناک امر ہے کہ 69 سال بعد بھی ہم ان خرافات سے نجات نہیں پا سکے جو ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔جبکہ ہر حکمران نے شفافیت‘ قانون کی عملداری اور میرٹ کی بجاآوری کے دعوے کئے۔بجا کہ ملک میں 33 سال فوجی آمریت کی نذر ہو گئے تاہم 36 سال جمہوری حکومتیں بھی تو مقتدر رہی ہیں۔ اب اکسٹھ سال سے جمہوریت کار فرما ہے۔ مگر برائیاںبدستور وجود مملکت و ریاست کو لاحق ہیں جن پر ملک کے منصف اعلیٰ افسردگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان برائیوں کے خاتمے کی اولین ذمہ دار حکومتیں ہی ہیں مگر عدلیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

وطن عزیز میں سپرمیسی پر بڑی بحث اور باتیں ہوتی ہیں۔ سپریم ریاست آئین اور پارلیمنٹ ہے مگر دیگر اداروں کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کچھ جرنیلوں کے ماورائے آئین اقدامات نے جمہوریت کو شدید نقصان سے دو چار کیا۔ ایسے اقدامات سے فوج کے طاقتور ادارے کا تاثر قائم ہوا۔ عدلیہ کی طرف سے بطور ادارہ جرنیلی آمریتوں کی معاونت سے جہاں خود اس ادارے کی نیک نامی پر حرف آیا وہیں جمہوریت بھی پٹڑی سے اترتی رہی۔ جنرل ضیاالحق اور مشرف کے ’’کو‘‘ کو سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ ان کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا جس کا دونوں جرنیلوں کی طرف سے مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ ایک طرف ایسے فیصلے دیئے گئے دوسری طرف ایسے جج بھی اسی ادارے کا حصہ تھے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ آج بھی سپریم کورٹ میں ایسے فاضل جج موجود ہیں جن کو قوم احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جنرل مشرف نے نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں رات گئے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اسے غیر قانونی قرار دیا۔ فیصلہ دینے والے ان ججوں کو آمریت کے مظالم کا سامنا ضرور کرنا پڑا تاہم اس بنچ کا فیصلہ مشرف کے اقتدارکیلئے پھندا بن گیا او رآج مشرف اسی لئے ملک سے فرار ہو کر کہیں دبکے بیٹھے ہیں۔ جیت بالآخر حق اور سچ کی ہوتی ہے۔

کوئی حکومت کو سپر کہے یا فوج کی سپرمیسی کی بات کرے، یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کے اختیارات اور فیصلوں کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت قانون سازی کرے تو بھی اس پر نظرثانی کی صورت میں فورم عدلیہ ہے۔ عدلیہ کی طاقت، سپرمیسی اور اسکے فیصلوں کے ان چیلنج اپیل ہونے کا اندازہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ کے اس حکم سے لگایا جا سکتا ہے جس میں صدر فاروق لغاری کو 58 ٹو بی کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے تھے جو بوجوہ صدر لغاری استعمال نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے جبکہ سجاد علی شاہ کو جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں متوازی عدالت بنوا کر فارغ کر دیا گیا تھا۔ اگر جج حضرات ذاتی رنجش کی بناء پر 58 ٹو بی جیسے اختیارات بحال کر سکتے ہیں تو ملک کو درست سمت کی طرف ڈالنے اور حکمرانوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے آئین اور قانون کے عین مطابق بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

آج پانامہ کیس قوم کے اعصاب پر سوار ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے پاناما لیکس سامنے آنے پر کہا تھا کہ یہ معاملہ قدرت کی طرف سے سامنے آیا ہے جس سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا مگر یہ معاملہ الجھایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا کہا جا رہا ہے گویا وہ بھی اس ہیجان سے جلد باہر نکلنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف بھی بلاتاخیر فیصلے کی بات کرتی ہے۔ پاناما لیکس سے کھربوں ڈالر کی کہانیاں وابستہ ہیں۔ الزامات کسی ایک خاندان پر نہیں سینکڑوں خاندانوں پر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی دہلیز پر کھڑے چیف جسٹس کے احکامات سے اس معاملے کی دنوں میں منطقی انجام تک پہنچنے کی امید پیدا ہوئی تھی مگر دو ماہ بعد اب یہ معاملہ نیا عدالتی بنچ نئے سرے سے دیکھے گا۔

سپریم کورٹ کے پاس سوموٹو کا اختیار ہے اور اس کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بارہا بیڈ گورننس کی نشاندہی کی گئی۔ حکومت کے بارے میں سخت اور تلخ ریمارکس بھی دیئے گئے مگر سخت نوٹس نہ لئے جانے پر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی تو ان کو گھر کی راہ دکھا دی گئی انکے جاں نشیں کو ایسی حکم عدولی کی جرأت نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ان برائیوں کے جاری و ساری رہنے پر دل گرفتہ ہیں جن کے خاتمے کی قائداعظم نے ہدایت کی تھی۔ سپریم کورٹ اس حوالے سے نوٹس بھی لیتی ہے۔ شاید کوئی آئینی اور قانونی قدغن بھی ہوں البتہ چند فیصلے یوسف گیلانی کی طرز پر ہو جائیں تو حکمرانوں اور حکام کا یقینی طور پر قبلہ درست ہو جائیگا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنی حد تک جو ممکنہ تھا شاید کرنے کی کوشش کی ہو‘ قوم اب نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس، نثار ثاقب سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ان برائیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ یہ کام تو حکمرانوں کے کرنے کا ہے۔ اگر وہ نہیں کرتے تو سپریم کورٹ ایسا کرنے کیلئے ان کو سوموٹو کے تحت ’’یاد دہانی‘‘ تو کرا سکتی ہے۔