جنرل راحیل کی لیگیسی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 23, 2016 | 17:47 شام

شینن ایلڈر کا قول ہے کہ ''روایات لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرتی ہے اور پھر لوگ آپ کے بارے میں کہانیاں دوسرے لوگوں کو سناتے ہیں۔''

آرمی کمان حاصل کرنے کے کئی ہفتوں بعد جنرل راحیل شریف نے اپنے ایک مہمان کو بتایا کہ وہ اپنے پیچھے طاقتور روایت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ ایک انتہائی پروفیشنل فوجی کے طور پر اپنے عہدے سے پورے وقار سے سبکدوشی کے ساتھ انہوں نے اپنے ادارے کا وقار بلند کر رہے ہیں۔

ایسا کہا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسا کوئی دوسرا آرمی چیف نہیں گزرا ہوگا جس نے اس قدر عزت اور مقبولیت حاصل کی ہوگی۔ بلاشبہ اس ملک میں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے، یہاں اکثر فوجی سربراہان غاصب بن جاتے ہیں اور رسوا ہو کر رخصت ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی فیصلہ کن صلاحیتوں اور ان کی سربراہی کو ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

مگر اسی اثنا میں جنرل راحیل شریف نے اپنے کئی مقبول مداحوں کو مایوس کیا ہے جن میں ٹی وی ٹاک شوز کے میزبان اور تبصرہ نگار بھی شامل ہیں جو مسلسل ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کرتے رہے۔ چند نے تو ملک کو فوجی حکومت کی طرف موڑنا بھی چاہا۔ اس کے بعد انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دیے جانے یا سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والی چند مسلم ملکوں کی مجوزہ مشترکہ افواج کی کمان سنبھالے جانے کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔

مگر آئی ایس پی آر کی جانب سے جنرل راحیل کے مختلف فوجی چھاؤنیوں کے الوداعی دورے کرنے کے اعلان کے ساتھ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور پرجوش تبصرہ نگاروں کی خواہشات ادھوری رہ گئیں۔ وہ ہر گز بوناپارٹ ازم کی لیگیسی کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ کسی بھی تنازع میں نہیں گھرے۔ رخصت ہونے والے فوجی سربراہ کے معاملے میں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ان کی باقار رخصتی سے ان کا کردار اب اور بھی بلند ہو چکا ہے۔

جنرل راحیل شریف عظیم حکمت عملی ترتیب دینے والے یا مفکر بھلے نہ ہوں مگر انہوں نے ایسے سخت فیصلے ضرور کیے جن سے دہشتگردوں کو منہ توڑ جواب دیا گیا، البتہ ان کے چند اقدامات پر جائز سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ کر جا رہے ہیں جسے پُر کرنا ان کے بعد آنے والے کے لیے دشوار ہوگا۔ نئے چیف کے لیے بھلے کسی کا بھی انتخاب کیا جائے مگر انہیں کئی خطرناک چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ ابھی جنگ میں مکمل فتح نہیں ملی ہے۔

یقیناً شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کامیاب اختتام کا سہرا جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، جس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی دہشتگردی کا بنیادی مرکز اور ہر قسم کے عسکری گروپوں، جن میں القاعدہ سے لے کر پاکستانی اور افغان طالبان شامل ہیں، کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ اس آپریشن میں تاخیر کی وجہ سابقہ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ کے تحفظات تھے۔ فیصلے میں اس ہچکچاہٹ سے ایک بھاری رقم چکانی پڑی۔

جنرل راحیل شریف کے کمان حاصل کیے جانے کے بعد جلد ہی فوج حرکت میں آئی۔ انہوں ان لوگوں کے تمام خدشات غلط ثابت کر دیے جو ان خطرناک علاقوں میں جانے سے خبردار کر رہے تھے اور وہاں موجود باغیوں سے مصالحتی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ مگر ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق فوجی قیادت اگر جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں کو طالبان باغیوں سے کلیئر نہ کرتی تو شمالی وزیرستان کی مہم میں کامیابی حاصل نہ ہو پاتی۔

سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی شاید عہدے میں توسیع کے بعد کی مدت کے دوران عملی سستی پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ ان کی ہی انسداد بغاوت کی حکمت عملی تھی جس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ قبائلی اور خیبر پختونخوا کے علاقوں کو طالبان کے چنگل سے آزاد اور وہاں ریاست کی رٹ قائم کی گئی۔

درحقیقت جنرل کیانی نے جہاں سے یہ سلسلہ چھوڑا وہاں سے ہی جنرل راحیل شریف نے نہ صرف اسے شروع کیا بلکہ زیادہ مؤثر انداز میں جاری رکھا۔ جس فوج کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے تھے وہ اور بھی زیادہ تجربہ اور جنگی مہارت حاصل کرچکی تھی۔ اس لڑائی میں زیادہ تر سینئرز کمانڈرز نے حصہ لے کر ان کے ٹاسک کو اور بھی زیادہ آسان بنا دیا۔ یقیناً آپریشن ضرب عضب میں کامیابی کے لیے تسلسل کو قائم کرنا نہایت ضروری تھا۔

مگر انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کا دائرہ ملک کے مرکزی حصوں میں بھی بڑھانے کا سہرا جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔ جس کی مدد سے ملک میں تشدد میں کمی واقع ہوئی۔

مگر اب بھی پرتشدد انتہاپسندی کے چیلنچ سے نمٹنے کے لیے ایک کامل اور جامع طریقہ کار کی کمی کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، جس کے باعث انسداد بغاوت کی مہم میں حاصل ہونے والی اب تک کی کامیابیاں بھی گنوائی جا سکتی ہیں۔

خاص طور پر فوجی قیادت کے لیے بلوچستان ایک سنجیدہ چیلنچ رہا ہے، اس صوبے کوحکمت عملی کے اعتبار سے غیر معمولی خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے کم درجے کے آزاد پسند افراد سے لے کر بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد تک، کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی کی ناقص حکمت عملیاں سکیورٹی ایجنسیز کے لیے مشکلات کھڑی کر چکی ہیں۔

افغانستان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق صوبے کو افغان باغی، مرکزی بیس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس طرح صورتحال اور بھی زیادہ حساس ہو چکی ہے۔ اس کے بعد عالمی جہادی گروپس اور فرقہ وارانہ عکسریت گروپس کے درمیان بڑھتی قربتوں نے ریاست کو درپیش مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ وہ ایک علاقہ ہے جہاں جنرل راحیل شریف نے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی۔

یقیناً سولین حکام کو بھی اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ یہ بنیادی طور پر سول اور فوجی قیادت کے مسلسل تنازعات کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے کوئی بہتر پالیسی ترتیب نہیں دی جا پاتی۔ حالانکہ جنرل راحیل شریف کے ذہن میں کسی قسم کی سیاسی خواہشات نہیں تھیں، مگر دونوں کے درمیان عدم اعتماد کا خاتمہ نہ ہو پایا۔

بلکہ گزشتہ چند مہینوں کے واقعات نے جنرل راحیل شریف کے آخری دنوں کو کافی متاثر کیا۔ چند اطلاعات کے مطابق فوجی قیادت نے قومی سلامتی پر اعلیٰ سطح کے اجلاس کی کارروائیوں کی میڈیا ’لیک‘ کی تحقیقات مکمل نہ ہونے پر وزیر اعظم ہاؤس میں کسی بھی اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔

سول فوجی تناؤ کے اصل اسباب مہینے کے آخر میں فوجی سربراہ کی تبدیلی سے ختم نہیں ہو جائیں گے۔ یہ کسی فرد سے زیادہ ایک ادارے کی بات ہے۔

چیف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ فوج کے اعلیٰ سربراہان کی تبدیلی کا سیزن آ گیا ہے۔ یقیناً نئے چیف کی تقرری کا خصوصی اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہے۔ چار امیدواروں میں سے کسی کو بھی اس عہدے پر فائر کرنے سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اگر ان کے تجربات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھا جائے تو، ان میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔

اب جبکہ کئی سینئر کمانڈرز جلد ہی ریٹائر ہو رہے ہیں تو نئے آرمی چیف کو اپنی ٹیم بھی تشکیل دینی ہوگی۔ فوجی قیادت میں تبدیلی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ بلاشبہ ہر کوئی یہی توقع رکھتا ہے کہ نیا سربراہ اپنے عہدے پر بیٹھے سابق سربراہ کی روایات کی پیروی کرے گا، جبکہ کچھ ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔

(بشکریہ ڈان)