پاکستان اور سمندر پار پاکستانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 27, 2017 | 09:14 صبح

 

عید قرباں کی آمد آمد ہے ۔لوگ اپنے آبائی گھروں کو اپنے پیاروں کے ساتھ جاکر عید منانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اپنوں کیساتھ خوشیاں منانا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے مگر مجبوریاں آڑے آتی ہیں تو حسرتیں ناتمام رہ جاتی ہیں۔وطن سے دور وطن کی یاد زیادہ شدت سے آتی ہے۔عید پر وطن سے دوری پر کوئی اپنے آنسوﺅں پر ضبط پالے توبڑی بات ہے۔وہ گنگناتے تو ہونگے ....

تساں کوں مان وطناں دا اساں ہاں یار پردیسی

یہ لوگ وطن واپسی پر جدیدآلات اور فرمائشی ملبوسات اور سامان آرائش وزیبائش سے لدی ٹرا

لیوں کےساتھ ایئرپورٹ سے باہر آتے ہیں تویہ ایک مسحور کن منظر ضرور ہوتا ہے۔لوگ انہیں رشک سے دیکھتے ہیں مگر جب یہ ایک دوماہ گزار کے واپس جارہے ہوتے ہیں توانکے دل پہ کیا گزرتی ہے،یہ بتانے کیلئے انکے پاس بھی الفاظ نہیں ہوتے۔تاہم جو لوگ اپنی فیملیز کیساتھ بیرون ممالک موجود ہیں ،انکے کیلئے وہاں زندگی نسبتاً آسان ہے مگر سب کو وہاں ایک جیسے انتظامی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔اپنے مسائل اور وہاں اپنے روزمرہ کے معمولات سے کچھ دوست آگاہ کرتے ہیں۔

نوائے واقت کی کالم نگار رابعہ رحمٰن نے پاکستان کے یوم آزادی کے سلسلے میں ہالینڈ میں پاکستانیوں کی طرف سے منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔ جہاں ایک شام رابعہ رحمٰن کے نام، میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان کی سفیر محترمہ عفت عمران گردیزی مہمان خصوصی تھیں،رپورٹ کے مطابق ڈچ ادبی فورم کی اس تقریب کو شرکاءنے یوم آزادی پر والہانہ پن تاریخی اور یاد گار بنا دیا،یوں لگا کہ ہالینڈ میں ایک پاکستان موجود ہے۔ایسی تقریبات پاکستانی ہر ملک میں پاکستان میں موجود شہریوں سے زیادہ اہتمام سے مناتے ہیں۔ امیر محمد خان سعودی عرب،عبدالشکور ابی حسن کویت ،وقارملک برسلز اور منیر احمد منیردبئی سے ایسے تقریبات کی رپورٹس نوائے وقت کو بھیجتے ہیں۔بر سبیل تذکرہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی کئی مسائل کا سامنا اور کچھ بطور صحافی سہولیات ان کا حق ہے۔وہاں تو ان کو اس ملک کے قوانین کے مطابق پیشہ وارنہ فرائض کی ادائیگی میں کوئی مراعات اور سہولیات ہونگی مگر پاکستان آمدورفت کیلئے قومی ایئر لائن میں کرائے میں رعایت صرف ہماری حکومت ہی دے سکتی ہے۔

جب ہم اوورسیزعام پاکستانیوں کے مسائل کی بات کرتے ہیںتوان میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہمارے حکمرانوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو کبھی اہمیت دی نہ انکے مسائل کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی۔ یوں تو حکومتِ پاکستان نے تارکینِ وطن کیلئے اوپی ایف کے نام سے ایک شعبہ بنایا ہے جوباقی اداروں کی طرح شعبدہ باز بنا نظر آتاہے۔ اس کیلئے مختص سالانہ بجٹ ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں پر صرف ہو جاتا ہے ۔ملک بھر کے تمام ایئرپورٹس پر او پی ایف کے کاﺅنٹرز بنے ہوئے ہیں جن کا کام اوورسیز جانے والے اور آنے والے تارکینِ وطن کو سفری سہولیات کے متعلق اطلاعات مفت پہنچانا ہوتاہے مگر یہ کاﺅنٹر ویران پڑے نظر آتے ہیں۔

اوورسیز پاکستانی جو کہ پندرہ سے بیس ارب ڈالر تک کا زرمبادلہ بھیج کر ملکی اکانومی کی عزت رکھے ہوئے ہیں، انکے بڑے مطالبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے وطن کی سیاست اور تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ رکھتے ہوئے انہیں ووٹ کا حق دیا جائے مگراس مطالبے کو درخور اعتناءنہیں سمجھا گیا۔ ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانی تارکینِ وطن کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیاہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضہ ایک خوفناک حقیقت ہے جس سے حکمران طبقے نے ہمیشہ نظریں چرانے اور منہ چھپانے کی کوشش کی،اگر کچھ کیا بھی تو کاغذی کارروائی کی حد تک۔ہزراوں میں سے چند ایک کیس حل کرکے ماتھے پر سمندرپار پاکستانیوں کی خدمت کا تمغہ سجا لیا۔ چند سال پہلے حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ہاﺅسنگ سوسائٹیز کی منظوری دی۔ ان مختص سوسائٹیز کے پچانوے فیصد پلاٹس مقامی رئیل اسٹیٹ مافیا نے حکام سے مل کر خوردبُرد کر لیے ہیں۔ ایسی سکیموں کو شفاف بنانے کیلئے ان میں تارکینِ وطن کی شمولیت لازمی قرار دی جائے۔

یوں تو حکومتِ پاکستان کی نمائندگی اوورسیز میں ان کے سفارتخانے اور قونصلیٹ کرتے ہیں ان میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس طرح منہ زورسفیر، ہائی کمشنرز اور قونصل جنرل حضرات من مانی کرنے میںآزاد ہیں۔اوور سیز پاکستانی کہتے ہیں کہ ملک میں جیسے پولیس کے تھانے بکتے ہیں ، وزارت خارجہ میں اسی طرح ایمبیسی اور قونصلیٹ کا ”بھاﺅ“ لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مسائل کے حل کیلئے اپنے ہی سفارتخانے کے باہر خوار ہوتے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پاکستانی قونصل جنرل عمران صدیقی اور پاکستان کے کینیڈا کیلئے ہائی کمشنر مسٹر طارق عظیم کے گٹھ جوڑ کےخلاف پاکستانیوں نے احتجاج کیا اور کمیونٹی کے رہنما غوث بٹ اور سینکڑوں ساتھیوں نے قونصلیٹ کے سامنے جلوس نکالے مگر پاکستان میں موجود انکی سیاسی سپورٹ کی وجہ سے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اب اوورسیز پاکستانیوں نے ”وطن ایمان“ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام حالیہ دنوں ”وطن ایمان “کے سعودی عرب کے انچارج سید عدنان جعفری نے سعودیہ کے شہر الخبر اور دمام میں اپنے مرحوم والدین رافیہ بیگم اور مروت جعفری کے ایصال ثواب کیلئے ایک محفل کا اہتمام کیا جس میں پاکستانیوں کے مسائل پر بھی بات ہوئی جبکہ ایسی ہی تقریبات اٹلی،سپین، بیلجیم، کینیڈا، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں بھی منعقد کی گئیں جن میں رافیہ بیگم مرحومہ کی سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔

اس وقت اوورسیز پاکستانیوں کیلئے سب سے بڑی تشویش ناک یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کو رواں سال ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے ۔ صرف سعودی عرب سے ڈیڑھ لاکھ جبکہ عمان سے بیس سے پچاس ہزار پاکستانیوں کو نکالا گیا اور یہ لوگ خاموشی سے گھر چلے آئے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکے ”کیوں نکالا مجھے“۔

” وطن ایمان“ فاﺅنڈیشن کے سید عدنان جعفری کے بقول ہزاروں پاکستانی اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں جن کو معمولی جرمانے ادا کرکے چھڑوایا جا سکتا ہے مگر پاکستان کی گذشتہ حکومت نے اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں وزیر خارجہ کا تقرر تک نہ کیا جبکہ آج کل کے دور میں کسی ترقی پذیرملک کا وزیر خارجہ نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے ایک کشتی کو ملاح کے بغیر سمندر میں چھوڑ دیا جائے۔اب اگر خواجہ آصف کو وزیرخارجہ بنا دیا گیا ہے انکی ترجیحات کوئی ڈھکی چھپی نہیں،اس فیلڈ میں انکی کیا مہارت ہے؟اوور سیز پاکستانیوں کیلئے انکی افادیت اور غیرافادیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

گذشتہ روز کینیڈا میں کینڈین پاکستانی فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب کا انعقاد بسلسلہ یومِ آزادی کیا گیا جس میں مقررین نے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِحال، میاں نوازشریف کے استعفیٰ اور انکے اپنے ہی اداروں کے بارے میں ”ارشادات“ کو ڈسکس کیا گیا۔ اس موقع پر رجب بٹ نے کہا کہ جب تک پاکستانی سیاست دان اپنا قبلہ درست نہیں کرتے اور قائداعظم کے راہنما اصولوں کو نہیں اپناتے اور جب تک لوٹا ازم سیاست کے خلاف صف بندی نہیں کرتے،قوم کا مقدر نہیں سنور سکتا۔ رجب بٹ مزید کہاکہ میں سلام پیش کرتا ہوں سابق صوبائی وزیر میاں عمران مسعود کو جنہوں نے نامساعد حالات میں تمام تر لالچ اور دھمکیوں کی پرواءنہ کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا ساتھ جاری رکھا۔مقررین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو جارحیت کی دھمکیاں دیں۔ ملک آفتاب نے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کی جرا¿تِ رندانہ کو سلام پیش کیا کہ جنہوں نے امریکی امداد اور ہتھیار لینے سے آئندہ کیلئے جرا¿ت مندانہ انکار کیا۔ آخر میں سید سجاد علی شاہ نے پاکستان اور پاکستانیوں کی سلامتی کیلئے دعا کروائی۔

ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں کو روٹی روزگار کے سلسلے میں پردیس میں رہنا پڑتا ہے۔پاناما لیکس میں سیکڑوں لوگوں کا نام ہے۔ان میں سے ایک کے وہاں اثاثوں کی مالیت 35ارب ڈالر ہے۔ اگر پاکستان سے ناجائز طریقے سے کمائے اور بیرون ملک بھجوائے اور بنائے گئے اثاثے اور اکاﺅنٹس پاکستان آجائیں تو پاکستان کے تمام قرض اتر جائیں،ملک ترقی و خوشحالی کی معراج پر ہو۔تمام تارکین پاکستان آکر وہاں سے زیادہ شان و شوکت سے زندگی گزار سکیں گے۔