وژن،بصیرت،پیش بینی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 30, 2017 | 04:55 صبح

جشن آزادی کی تقریب کا منفرد اور طرح دار اہتمام کیا گیا تھا۔ سفارتخانہ رنگ و نور اور خوشبوئوں میں نہایا ہوا تھا۔ یہ امریکہ کا 200 واں یوم آزادی تھا۔ تقریب امریکیوں کا طرہ امتیاز تھی۔ اس خاص موقع پر اعلیٰ شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ طرح دار شخصیات کی طرہ دار خدام ٹہل سیوا کررہے تھ

ے۔ حسیں کنیزیں الگ سے شرفاء کے جذبات پر بجلیاں گرا رہی تھیں۔ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی اس محفل میں رونق افروز تھے۔ یہ جاگتی شب 4 اور 5 جولائی کے سنگم پر تھی۔ گورنر سٹیٹ بنک غلام اسحق خان اورآرمی چیف جنرل ضیاء الحق ذرا فاصلے پر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں دیکھا تواسی طرف چلے آئے۔ جنرل ضیاء الحق کی اپنے باس پر اچانک نظر پڑی تو کچھ سہمے اور کچھ سراسیما ہوئے، جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ اس وقت تک کش لگا چکے تھے، احترام اور بدحواسی کی ملی جلی کیفیت میں سگریٹ مسل کر پتلون کی جیب میں ڈال لیا اور دھواں نگل گئے۔ سگریٹ پوری طرح بجھ نہیں سکا تھا، پتلون کی جیب سے دھواں نکلتے دیکھ کر بھٹو نے کہا تھا، جنرل آپ فوج کو جلا رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کی طرف سے اپنے وزیراعظم کیلئے یہ انتہائی ادب اور احترام کا اظہار تھا مگر اس کے تین گھنٹے بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ امریکہ کا یوم آزادی 4 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ پہلا 1777ء کو منایا گیا تھا 4 جولائی 77ء کو دوسوواں فریڈم ڈے تھا، اسکے بعد جیالے 4 جولائی کو ہر سال یوم سیاہ مناتے ہیں۔

جلتا سگریٹ چھپانے اور دیگر واقعات بلوچستان کے سابق نگران وزیر اعلیٰ سردار غوث بخش باروزئی بیان کر رہے تھے۔ سگریٹ والے واقعہ کے شاہد ان کے والد سردار محمد خان باروزئی ہیں۔ محمد خان باروزئی بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور وزیر اعلیٰ رہے۔ بھٹوان  پر اس قدر اعتماد کرتے تھے کہ بے نظیر کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کہا کہ کسی معاملے میں پارٹی اختلافات کا شکار ہو تو باروزئی صاحب کی رائے کو ترجیح دینا۔

بھٹو صاحب کو فوجی بغاوت سے قبل اس کا ادراک ہو گیا تھا، انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا کہ ہمارا اقتدار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے جس نے الگ ہونا ہے وہ بخوشی ہو جائے، جو بھٹو کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے وہ بھی اقتدار کے آخری دن تک ہمقدم رہے۔ بھٹو کو بغاوت کی بو ڈیڑھ دو ماہ قبل آ گئی تھی، وژن، بصیرت اور پیش بینی اسی کا نام ہے۔

بھٹو صاحب نے انتخابات سات ماہ قبل کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے مختلف داستانیں مشہور ہیں۔ حقیقت یہ ہے، امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھٹو کا عزم دیکھ کر عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی انہی دنوں فرانس کے ساتھ ایٹمی ریکٹر کا معاہدہ ہوا تھا، فرانس امریکی دبائو میں تھا، چھ سات ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آ سکتی تھی۔ فرانس کی خواہش تھی کہ بھٹو نئے مینڈیٹ کے ساتھ معاہدہ کریں۔ بھٹو صاحب نے اپنے ساتھیوں کو اگست کے بجائے جنوری میں الیکشن کرانے کی یہی وجہ بتائی تھی۔ انہوں نے اپنے سیاسی ساتھیوں کو جنوری میں الیکشن کرانے پر قائل کرنے کیلئے بلا رکھا تھا۔ سب نے اپنی اپنی بات کہی۔ نواب صادق قریشی، مصطفی جتوئی اور اقبال خان جدون نے اپنے اپنے صوبے بتدریج پنجاب، سندھ، سرحد میں کامیابی کا یقین دلایا۔ سردار محمد خان باروزئی کی باری آئی تو انہوں نے پوچھا کہ اے این پی کی قیادت زیر حراست ہے، کیا اسے رہا کر دیا جائیگا اور انہیں انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی؟؟ بھٹو صاحب نے کہا، ہاں! ان کو چھوڑنا پڑے گا۔ باروزئی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ لوگ باہر آئے تو جلسے جلوسوں کی قیادت کریں گے۔ تمام پارٹیاں متحد ہو چکی ہونگی۔ پیپلز پارٹی فری اینڈ فیئر الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ بائی الیکشن میں جس طرح شور شرابا کیا گیا عام انتخابات میں بھی یہی سلسلہ نظر آئے گا حالات مارشل لاء کو دعوت دے رہے ہونگے اور پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہتر ہے کہ انتخابات اگست میں کرائے جائیں اور اے این پی کی لیڈر شپ کو ابھی رہا کر دیا جائے تاکہ اس کا طلسم چھ سات ماہ میں ٹوٹ جائے۔ باروزئی صاحب کے اس مشورے پر مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ آپ کو ہارنے کا تو خدشہ نہیں ہے کہ آپ وزیر اعلیٰ نہیں بن سکیں گے۔ اس پر انہوں نے کوثر نیازی کو جواب دیا کہ ایسا خدشہ آپ کو ہو سکتا ہے مجھے نہیں۔ جب باروزئی صاحب اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد کی بات کر رہے تھے تو ایک سائیڈ پر بیٹھے ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل جیلانی نے بھٹو صاحب کو مخاطب کر کے کہا، سر اپوزیشن کے ایسے کسی اتحاد کا امکان نہیں ہے۔ باروزئی صاحب نے اس موقع پر جو تجزیہ دیا وہ درست ثابت ہوا۔ وژن، بصیرت اور پیش بینی اسی کا نام ہے۔ سردار باروزئی کی باتوں سے بھٹو صاحب نے اتفاق ضرور کیا تاہم پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی شاید ان کو جلدی تھی، اس لئے الیکشن جنوری میں کرانے کا فیصلہ اور اس پر عمل کیا گیا۔

پس دیوار جو کچھ ہورہا ہے ،روزن سے جھانکے بنااس کا ادراک ہوجائے اور سیاست میں جو حالات کی روشنی میں ہوسکتا ہے اس کا احساس ہوجائے ،یہ سیاسی وژن ہے۔آج ہم اپنے سیاسی اکابرین اور بزر جمہرانِ جمہوریت کے کردار وعمل کا جائزہ لیتے ہیں جتنا بڑا لیڈر اتنا ہی زیادہ بے بصیرت اور VissionLess نظر آتاہے۔زرداری صاحب کو 2013ء الیکشن کے نتائج کا ادراک نہ ہوسکا،اگر باری کے لئے انہوں نے بیک فُٹ پر جانے کا فیصلہ کیا تو یہ پارٹی کی قیمت پر اتنا مہنگا فیصلہ تھا کہ زرداری میلینئم میں بھی اس کا تدارک نہیں کرسکتے۔سیون سٹار زندگی گزارنے کیلئے انہوں نے جو دولت سمیٹی ہے اس کو خرچ کرنے کیلئے ملینز سال زندگی کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم نواز شریف وژن2040ء کی بات کرتے ہیں،ان کی بصیرت کو سلام کہ پاناما جھنجٹ ،جال اور جنجال میں خود کو تقریریں کرکے پھنسا لیا۔اب حالات کس نہج پر ہیں، پاناما کیس کا فیصلہ ان کو چین نہیں لینے دیتا،کلبھوشن سے ان کی ہمدردی کی داستانیں عام ہیں اوروہ مودی کے یارسجن جندل سے مری کی پُرکیف فضائوں میں ملاقاتیں کررہے ہیں،اس پر مریم نواز کہتی ہیں کہ جندل ابو کے دیرینہ دوست ہیں مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ دوستی کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ یہ وژن ،یہ سادگی! پی پی پی اور ن لیگ میں بصیرت افروز دیدہ ور موجود ہیں مگر ان کو کوئی پوچھتا نہیں۔

سردار غوث بخش باروزئی اب بھی اپنے والد کی پارٹی سے وابستہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے نظر انداز کردیا مگر کسی اورپارٹی میں جانے کو دل نہیں کرتا۔وہ پاکستان اور خصوصی طور پربلوچستان کیلئے وہ کرسٹل کلیئر وژن رکھتے ہیں۔ وہ ملک میں مروجہ جمہوریت کو فساد کی جڑ سمجھتے ہیں۔انتخابات شفاف ہوں تو پاکستان میں جمہوریت فساد کے بجائے ثمربار ثابت ہوسکتی ہے۔بلوچستان میں مسائل کی وجوہات میں مس گورننس،تعلیمی پسماندگی،معاشی درماندگی کواہم قرار دیتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار زیادہ مرکز اور اس کے بعد مقامی حکمران ہیں۔ وہ مرکز کو اس لئے ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ وہ صوبے کی انتظامیہ پر کڑی نظر نہیں رکھتے۔ذوالفقار علی بھٹو نے شیر پائو کے قتل پر نیپ کی حکومت توڑی تو نااہلی پر اس کے بعد اپنی پارٹی کی حکومت کو بھی چلتا کیا تھا۔مرکز بڑے لوگوں پر سرمایہ کاری کرتا ہے جس سے عام آدمی کی قسمت میں استفادہ ناممکن ہوتا ہے۔بلوچستان کی اربنائزیشن پر وہ زور دیتے ہیں،موسیٰ خیل خوبصورتی،صحت افزااور سیاحتی مقام کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے،اسے اس کی اہمیت کے مطابق ڈویلپ نہ کرنا قومی بدقسمتی ہے۔کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اسلام آباد اور موسیٰ خیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔نواب غوث بخش 2008ء کی نگران صوبائی کابینہ میں وزیر اور اگلے الیکشن میں وزیر اعلیٰ رہے۔اُن حالات میں بلوستان میں الیکشن ایک چیلنج تھے جبکہ اداروں کی طرف سے دویا تین فیز میں انتخابات کرانے کی تجویز تھی۔ انہوں نے پولیس اور سیکورٹی اداروں سے کہا شہروں کو سیٹل ،روڈز کو میٹل رکھیں، اندرون صوبہ کیسے امن رکھنا ہے وہ میں جانتاہوں۔ دبائو کے باوجود کیبنٹ نہیں بنائی،آئی جی ایف سی نے اپنا ایک بندہ وزارت کیلئے پیش کیا،چیف سیکرٹری بابر یعقوب کابینہ بنوانے میں بے چین تھے۔مرادنہ پانے پرانہوں نے سیکرٹریوں کو ’’ ذرا دھیرے‘‘ چلنے کو کہہ دیا، جس پر وزیر اعلیٰ پیچ کس دیئے،صوبے میں فری اینڈ فیئر الیکشن کرائے مگر خود ان کے ساتھ ’’استادی‘‘ ہوگئی۔ان کے بھائی باروخان باروزئی کو ہرا دیا گیا۔ اس استادی میں زیادہ ہاتھ آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید خٹک کا تھا جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنے اور کرپشن پر بڑے بے آبرو ہوکے فوج سے نکلے ۔غوث بخش باروزئی کا وژن ہے کہ بلوچستان کو ترقی میں دوسرے صوبوں کے برابر لانے کیلئے کم از کم تین نئے شہربھی بسائے جائیں۔