راز ۔۔ہمراز... فضل حسین اعوان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 04, 2017 | 12:41 شام


فوج پر اگلا کالم کب لکھ رہے ہو"۔"
"ایک ہی کافی ہے‘ لوگ کہیں گے‘ فوج کا بندہ ہے۔"
کس کی فوج کا‘ پاکستان کی یا انڈیا کی"؟"
غوری صاحب کے ساتھ یہ مکالمہ کئی سال پہلے ہوا‘ ان دنوں آئی ایس آئی کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا۔ مجیدنظامی صاحب نے امریکی جریدے میں شائع ہونیوالی سٹوری کا جواب لکھنے کو کہا تھا جو مین ادارتی صفحے پر دو قسطوں میں شائع ہوا۔ رفیق غوری اسی کالم کی بات کر رہے تھے۔
کالم کی اشاعت کے بعد دوسرے روز

ایک فون کال نے چونکا دیا۔ ”کرنل....آئی ایس آئی سے بول رہا ہوں۔“ جواب میں ”جی فرمایئے“ ہی کہا جا سکتا تھا۔ آپکے ”نوائے وقت“ میں شائع ہونیوالے کالم کے بارے میں ڈی صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میرا موبائل نمبر لیا اور خداحافظ کہہ دیا۔ اگلے روز موبائل پر ایئرکموڈور خالد نے کالم پر بات کی، ان کا خوشگوار تاثر تھا۔ ریئر ایڈمرل شفیق نے فون کرکے ایپری شیٹ کیا اور آخری کال جنرل شجاع پاشا کی تھی۔ اس سے قبل فون کرنیوالوں نے ہو سکتا ہے فرضی نام بتائے ہوں۔ جنرل پاشا نے کہاکہ آج آئی ایس آئی کو جن حالات کا سامنا ہے‘ ان میں آپ کا کالم بہتر ثابت ہوا۔ انہوں نے ریلیف کا لفظ استعمال کیا تھا۔
 میں بڑا کالم نگار ہوں نہ ایسا کوئی زعم ہے بلکہ فیس بک پر جن لوگوں کی رائے سے کالم مطابقت نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ”کالم لکھنا سیکھو“ میںسیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ”نوائے وقت“ کے اس کالم سے آئی ایس آئی کو کیا ریلیف ملا ہوگا‘ تاہم یہ واضح ہوا کہ الفاظ چھوٹے نہیں ہوتے،انکی ایک حرمت ہے۔ ان میں طاقت ہے‘ یہ بے اثر‘ بے ثمر نہیں ہوتے۔ کسی کیلئے سودمند‘ کسی کیلئے ضرر رساں ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ میرے جیسے عام شخص کی تحریر ایک بڑے ادارے کیلئے سودمند ہو سکتی ہے تو بڑے لوگوں کی تحریر تو جادوئی اثر رکھتی ہوگی اور جو بڑے لوگ بڑے میڈیا اداروں میں فوج کیخلاف لکھتے اور کہتے ہیں‘ اس کا اندازہ کریںکہ فوج کی ساکھ کتنی مجروح ہوتی ہوگی۔ یہ سوال اپنی جگہ‘ فوج‘ آئی ایس آئی یہ کیوں کرتی ہے‘ وہ کیوں کرتی ہے؟ اگر فوج یہ کرتی ہے۔ یہ اور وہ سے مراد کچھ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ایکشنز اور اقدامات ہیں۔ قومی مفاد کا تعین آجکل کچھ ”اجل تجزیہ“ نگاری کا زعم رکھنے والے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس کیلئے ادارے موجود ہیں۔ یہ ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ اس کا جواب ان کے گلے پڑنا اور بدنام کرنا نہیں۔اپنی حد تک اور حیثیت میں اصلاح کی کوشش ضرور کی جائے۔ جس طرح ادارے کبھی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں‘ اسی طرح کچھ سیاستدان اور تجزیہ کار بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ رفیق غوری کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں کیا کیا!
رفیق غوری مشرف کے ٹیک اوور سے قبل ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی کے اونر تھے۔ انہوں نے مارشل کے اوپر قلم اٹھایا تو ان کو اٹھا لیا گیا۔ ان کا کاروبار برباد ہو گیا۔ تشدد سے انکے دانت ٹوٹے اور صحت گرتی چلی گئی۔ 90ءمیں ان کا بانکپن دیکھنے والے اب ان کا لرزتا بدن دیکھتے تھے۔ راہ چلتے بھی لگتے کہ سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔.”نوائے وقت“ میں کالم نگاری شروع کی تو اکثر آفس آجاتے۔ ان دنوں پی ٹی وی میں جاب کرتے تھے۔ وہاں تقرری کا بھی انہوں نے عجب حال سنایا۔ انکی تنخواہ کا معاملہ جو افسر طے کر رہا تھا‘ اس نے 80 ہزار کی آفر کی۔ غوری صاحب نے ”80 ہزار“ لفظ دہرایا تو انہوں نے ایک لاکھ کہا۔ غوری صاحب نے اس پر بھی بات کرنے کی کوشش کی۔ یہی تین چار بار ہوا، افسر نے اڑھائی لاکھ کہہ کر غوری صاحب کو مخاطب کیا۔“صاحب! کیا اتنی تنخواہ ٹھیک ہے“۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تو رفیق غوری کو بولنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنا مافی الضمیر یوں بیان کیا کہ میرے اتنے اخراجات نہیں ہیں۔ تیس ہزار روپے ماہانہ ٹھیک رہیں گے۔ یہ سن کر افسر نے بھونچکا تو رہنا ہی تھا۔ غوری صاحب اسی تنخواہ پر اپنے آخری کنٹریکٹ پر کام کرتے رہے۔ ان کو ملازمت کی ضرورت اپنے کاروبار کی تباہی اور صحت کی بربادی کے باعث پیش آئی۔

 وہ اپنے اوپر فوج کے کئے گئے تجربات بیان کیا کرتے تھے جس کا اظہار انکے فرزند بلال غوری نے اپنے کالموں میں کیا ہے۔
غوری صاحب نے جب کہا ، کس فوج کا بندہ ہونے کی بات ہوگی تو میرے سامنے انکی سنائی سٹوری آ گئی۔"غوری صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں“؟
 انہوں نے جو کہا‘ وہ یقینا ایک تاریخی فقرہ ہے. ”میرے ساتھ فوج نے جو بھی کیا مگر ہے تو میری فوج‘ میرے وطن کی سرحدوں کی محافظ فوج‘ اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ اس کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ دشمن کے مقابلے میں دفاعی پوزیشن پر کیوں جائے“! کچھ حلقوں کی طرف سے فوج کو رگیدنا‘ اسکی کردار کشی کرنا ایک فیشن اور جرا¿ت دلیری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام کچھ میڈیا ادارے‘ کچھ صحافی‘ کچھ این جی اوز‘ کچھ سول سوسائٹی کے افراد اور کچھ سیاستدان بلا احساس ِزیاں کے کرا رہے ہیں۔
جاوید ہاشمی نے عمران خان پر اس وقت چڑھائی جب پانامہ کیس کی سماعت شروع ہونےوالی ہے۔ ہو سکتا ہے جاوید ہاشمی کا مقصد کیس سے توجہ ہٹانا نہ ہو مگر عدلیہ اور فوج کی ” پَت لتھ“ رہی ہے۔ وہ وثوق سے جوڈیشل مارشل کی بات کرتے ہیں جس کے نفاذ کی دھرنا ”ون“ میں تیاری ہو چکی تھی۔ وہ جسٹس ناصرالملک اور جنرل طارق کا نام لیتے ہیں۔ بعد کے شواہد کو دیکھیں تو ناصرالملک نے جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا حکومت کی حمایت میں تھا۔ یہ مبنی بر انصاف فیصلہ تھا مگر انکی جانبداری انتخابات کو شفاف قرار دینا تھا حالانکہ فیصلہ یہ کرنا تھا کہ انتخابات 2013ءمیں منظم دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں‘ یقینا منظم دھاندلی نہیں ہوئی، غیرمنظم ضرور ہوئی جس کا جہاں زور چلا ‘یا اس نے چلایا اس سے کسی کو انکار نہیں۔ ایسے میں شفاف الیکشن کا کیسے دعویٰ یا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بادی النظر میں جسٹس ناصرالملک عمران خان کے حامی کبھی نہیں تھے۔
 کوئی بھی جنرل آرمی چیف کی مرضی کے برعکس کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ کورکمانڈر اور ڈی جی آئی ایس آئی فوجی سربراہ کی ٹیم ہوتے ہیں۔ اس ٹیم کی حیثیت گراﺅنڈ میں کرکٹ ٹیم جیسی ہے۔ جہاں کپتان نے پلیس کر دیا‘ وہیں فیلڈنگ کرنی ہے۔ ڈریسنگ روم میں ہو سکتا ہے کوئی کھلاڑی من مرضی کرے مگر آرمی چیف کی ٹیم کی حیثیت ہمہ وقت میدان میں موجودگی جیسی ہوتی ہے۔ کورکمانڈر اور ڈی جی آئی ایس آئی فوجی سربراہ کی مرضی اور اعتماد سے لگتے اور اسکے اطمینان تک برقرار رہتے ہیں۔ جنرل طارق پرویز نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی تو جنرل مشرف نے ان کو ریٹائر کروا دیا۔ بےنظیر نے فوج کی مرضی کے برعکس جنرل عبدالرحمن کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تو آئی ایس آئی فوج سے الگ کھڑی تھی۔ اسی لئے فوج نے بےنظیربھٹو کیخلاف آئی جے آئی کی تشکیل کےلئے ایم آئی کو استعمال کیا جس کے سربراہ میجر جنرل اسد درانی تھے۔ آئی ایس آئی کو ان رقوم کی تقسیم کی کانوں کان خبر نہ ہو سکی جن کا کیس اصغر خان نے سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ جنرل طارق یا کوئی بھی جرنیل اپنی حیثیت میں مارشل لاءاور جوڈیشل مارشل لاءجیسے فیصلے قطعی نہیں کر سکتا۔ جنرل راحیل نے مارشل لاءلگانا ہوتا تو انکے پاس کئی مواقع آئے۔ ویسے بھی آرمی چیف نے مارشل لاءلگانا ہوتو اسے مواقع اور جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ڈاکو واردات سے قبل اخلاقیات کی کتابیں اور آرمی چیف مارشل لاءسے قبل آئین نہیں پڑھتے۔
 جاوید ہاشمی کو جہاندہ سیاست دان کہا جاتا ہے‘ وہ عمر ڈھلنے کےساتھ ساتھ سینئر بزرگ اور تجربہ کار بھی ہو گئے۔ وہ” اپنی فوج“ کا نام بلند نہیں کر سکتے تو بدنام بھی نہ کریں۔ ایک ساتھ رہتے ہوئے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ لوگ ہمراز ہوتے ہیں۔ اختلافات ہونے پر راز اُگلنا دانشمندی نہیں۔ عمران خان انہیں پاگل قرار دیتے ہیں‘ جاوید ہاشمی نے اپنے اور عمران کے دماغی معائنے کی بات کی ہے۔ جاویدہاشمی جو کہتے ہیں‘ وہ واقعی درست ہے تو ان دو کے ساتھ جنرل طارق اور ناصرالملک کو بھی اسی عمل سے گزارنا چاہیے کیونکہ وہ پلاننگ ہی ناقابل عمل نہیں تھی۔ آپ ایک ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کے رازوں کے امین ہوتے ہیں‘ جو کچھ جاوید ہاشمی کر رہے ہیں کیا وہ رازوں کے امین رہ گئے۔ وہ (ن) لیگ میں جارہے ہیں‘ اگر وہ (ن) لیگ کی طرف سے پی ٹی آئی میں پلانٹڈ نہیں تھے تو (ن) لیگ کی قیادت یا وہ کسی بھی پارٹی میں جائیں وہ ان کو کیسے اپنا ہم راز بنائے گی۔ جنرل طارق نے ہاشمی صاحب کے الزامات کی تردید کی جبکہ جسٹس ناصرالملک نے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کردیا‘ اس سے انکے مقام مرتبے اور عزت میں اضافہ ہوا۔