فوج پر اگلا کالم کب لکھ رہے ہو"۔"
"ایک ہی کافی ہے‘ لوگ کہیں گے‘ فوج کا بندہ ہے۔"
کس کی فوج کا‘ پاکستان کی یا انڈیا کی"؟"
غوری صاحب کے ساتھ یہ مکالمہ کئی سال پہلے ہوا‘ ان دنوں آئی ایس آئی کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا۔ مجیدنظامی صاحب نے امریکی جریدے میں شائع ہونیوالی سٹوری کا جواب لکھنے کو کہا تھا جو مین ادارتی صفحے پر دو قسطوں میں شائع ہوا۔ رفیق غوری اسی کالم کی بات کر رہے تھے۔
کالم کی اشاعت کے بعد دوسرے روز
ایک فون کال نے چونکا دیا۔ ”کرنل....آئی ایس آئی سے بول رہا ہوں۔“ جواب میں ”جی فرمایئے“ ہی کہا جا سکتا تھا۔ آپکے ”نوائے وقت“ میں شائع ہونیوالے کالم کے بارے میں ڈی صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میرا موبائل نمبر لیا اور خداحافظ کہہ دیا۔ اگلے روز موبائل پر ایئرکموڈور خالد نے کالم پر بات کی، ان کا خوشگوار تاثر تھا۔ ریئر ایڈمرل شفیق نے فون کرکے ایپری شیٹ کیا اور آخری کال جنرل شجاع پاشا کی تھی۔ اس سے قبل فون کرنیوالوں نے ہو سکتا ہے فرضی نام بتائے ہوں۔ جنرل پاشا نے کہاکہ آج آئی ایس آئی کو جن حالات کا سامنا ہے‘ ان میں آپ کا کالم بہتر ثابت ہوا۔ انہوں نے ریلیف کا لفظ استعمال کیا تھا۔
میں بڑا کالم نگار ہوں نہ ایسا کوئی زعم ہے بلکہ فیس بک پر جن لوگوں کی رائے سے کالم مطابقت نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ”کالم لکھنا سیکھو“ میںسیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ”نوائے وقت“ کے اس کالم سے آئی ایس آئی کو کیا ریلیف ملا ہوگا‘ تاہم یہ واضح ہوا کہ الفاظ چھوٹے نہیں ہوتے،انکی ایک حرمت ہے۔ ان میں طاقت ہے‘ یہ بے اثر‘ بے ثمر نہیں ہوتے۔ کسی کیلئے سودمند‘ کسی کیلئے ضرر رساں ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ میرے جیسے عام شخص کی تحریر ایک بڑے ادارے کیلئے سودمند ہو سکتی ہے تو بڑے لوگوں کی تحریر تو جادوئی اثر رکھتی ہوگی اور جو بڑے لوگ بڑے میڈیا اداروں میں فوج کیخلاف لکھتے اور کہتے ہیں‘ اس کا اندازہ کریںکہ فوج کی ساکھ کتنی مجروح ہوتی ہوگی۔ یہ سوال اپنی جگہ‘ فوج‘ آئی ایس آئی یہ کیوں کرتی ہے‘ وہ کیوں کرتی ہے؟ اگر فوج یہ کرتی ہے۔ یہ اور وہ سے مراد کچھ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ایکشنز اور اقدامات ہیں۔ قومی مفاد کا تعین آجکل کچھ ”اجل تجزیہ“ نگاری کا زعم رکھنے والے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس کیلئے ادارے موجود ہیں۔ یہ ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ اس کا جواب ان کے گلے پڑنا اور بدنام کرنا نہیں۔اپنی حد تک اور حیثیت میں اصلاح کی کوشش ضرور کی جائے۔ جس طرح ادارے کبھی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں‘ اسی طرح کچھ سیاستدان اور تجزیہ کار بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ رفیق غوری کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں کیا کیا!
رفیق غوری مشرف کے ٹیک اوور سے قبل ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی کے اونر تھے۔ انہوں نے مارشل کے اوپر قلم اٹھایا تو ان کو اٹھا لیا گیا۔ ان کا کاروبار برباد ہو گیا۔ تشدد سے انکے دانت ٹوٹے اور صحت گرتی چلی گئی۔ 90ءمیں ان کا بانکپن دیکھنے والے اب ان کا لرزتا بدن دیکھتے تھے۔ راہ چلتے بھی لگتے کہ سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔.”نوائے وقت“ میں کالم نگاری شروع کی تو اکثر آفس آجاتے۔ ان دنوں پی ٹی وی میں جاب کرتے تھے۔ وہاں تقرری کا بھی انہوں نے عجب حال سنایا۔ انکی تنخواہ کا معاملہ جو افسر طے کر رہا تھا‘ اس نے 80 ہزار کی آفر کی۔ غوری صاحب نے ”80 ہزار“ لفظ دہرایا تو انہوں نے ایک لاکھ کہا۔ غوری صاحب نے اس پر بھی بات کرنے کی کوشش کی۔ یہی تین چار بار ہوا، افسر نے اڑھائی لاکھ کہہ کر غوری صاحب کو مخاطب کیا۔“صاحب! کیا اتنی تنخواہ ٹھیک ہے“۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تو رفیق غوری کو بولنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنا مافی الضمیر یوں بیان کیا کہ میرے اتنے اخراجات نہیں ہیں۔ تیس ہزار روپے ماہانہ ٹھیک رہیں گے۔ یہ سن کر افسر نے بھونچکا تو رہنا ہی تھا۔ غوری صاحب اسی تنخواہ پر اپنے آخری کنٹریکٹ پر کام کرتے رہے۔ ان کو ملازمت کی ضرورت اپنے کاروبار کی تباہی اور صحت کی بربادی کے باعث پیش آئی۔ وہ اپنے اوپر فوج کے کئے گئے تجربات بیان کیا کرتے تھے جس کا اظہار انکے فرزند بلال غوری نے اپنے کالموں میں کیا ہے۔
میں بڑا کالم نگار ہوں نہ ایسا کوئی زعم ہے بلکہ فیس بک پر جن لوگوں کی رائے سے کالم مطابقت نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ”کالم لکھنا سیکھو“ میںسیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ”نوائے وقت“ کے اس کالم سے آئی ایس آئی کو کیا ریلیف ملا ہوگا‘ تاہم یہ واضح ہوا کہ الفاظ چھوٹے نہیں ہوتے،انکی ایک حرمت ہے۔ ان میں طاقت ہے‘ یہ بے اثر‘ بے ثمر نہیں ہوتے۔ کسی کیلئے سودمند‘ کسی کیلئے ضرر رساں ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ میرے جیسے عام شخص کی تحریر ایک بڑے ادارے کیلئے سودمند ہو سکتی ہے تو بڑے لوگوں کی تحریر تو جادوئی اثر رکھتی ہوگی اور جو بڑے لوگ بڑے میڈیا اداروں میں فوج کیخلاف لکھتے اور کہتے ہیں‘ اس کا اندازہ کریںکہ فوج کی ساکھ کتنی مجروح ہوتی ہوگی۔ یہ سوال اپنی جگہ‘ فوج‘ آئی ایس آئی یہ کیوں کرتی ہے‘ وہ کیوں کرتی ہے؟ اگر فوج یہ کرتی ہے۔ یہ اور وہ سے مراد کچھ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ایکشنز اور اقدامات ہیں۔ قومی مفاد کا تعین آجکل کچھ ”اجل تجزیہ“ نگاری کا زعم رکھنے والے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس کیلئے ادارے موجود ہیں۔ یہ ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو تکلیف تو ہوتی ہے۔ اس کا جواب ان کے گلے پڑنا اور بدنام کرنا نہیں۔اپنی حد تک اور حیثیت میں اصلاح کی کوشش ضرور کی جائے۔ جس طرح ادارے کبھی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں‘ اسی طرح کچھ سیاستدان اور تجزیہ کار بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ رفیق غوری کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں کیا کیا!
رفیق غوری مشرف کے ٹیک اوور سے قبل ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی کے اونر تھے۔ انہوں نے مارشل کے اوپر قلم اٹھایا تو ان کو اٹھا لیا گیا۔ ان کا کاروبار برباد ہو گیا۔ تشدد سے انکے دانت ٹوٹے اور صحت گرتی چلی گئی۔ 90ءمیں ان کا بانکپن دیکھنے والے اب ان کا لرزتا بدن دیکھتے تھے۔ راہ چلتے بھی لگتے کہ سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔.”نوائے وقت“ میں کالم نگاری شروع کی تو اکثر آفس آجاتے۔ ان دنوں پی ٹی وی میں جاب کرتے تھے۔ وہاں تقرری کا بھی انہوں نے عجب حال سنایا۔ انکی تنخواہ کا معاملہ جو افسر طے کر رہا تھا‘ اس نے 80 ہزار کی آفر کی۔ غوری صاحب نے ”80 ہزار“ لفظ دہرایا تو انہوں نے ایک لاکھ کہا۔ غوری صاحب نے اس پر بھی بات کرنے کی کوشش کی۔ یہی تین چار بار ہوا، افسر نے اڑھائی لاکھ کہہ کر غوری صاحب کو مخاطب کیا۔“صاحب! کیا اتنی تنخواہ ٹھیک ہے“۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تو رفیق غوری کو بولنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنا مافی الضمیر یوں بیان کیا کہ میرے اتنے اخراجات نہیں ہیں۔ تیس ہزار روپے ماہانہ ٹھیک رہیں گے۔ یہ سن کر افسر نے بھونچکا تو رہنا ہی تھا۔ غوری صاحب اسی تنخواہ پر اپنے آخری کنٹریکٹ پر کام کرتے رہے۔ ان کو ملازمت کی ضرورت اپنے کاروبار کی تباہی اور صحت کی بربادی کے باعث پیش آئی۔