بیت المقدس …اسرائیل نا قابل شکست نہیں!

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 10, 2017 | 19:51 شام

اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے امریکی اسلحہ ساز کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کے دوران ہتھیاروں کی خریداری کا سودا طے کیا۔ اگلے روز وزیراعظم نے معاہدے کی تفصیلات کابینہ کے سامنے رکھیں تو کابینہ نے سرے سے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ کابینہ کا استدلال تھا ’’اتنے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری سے قوم کو برسوں تک ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔‘‘ گولڈا میئر نے کابینہ کے دلائل سے اتفاق کیا تاہم جوابی دلائل دیتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل جنگ جیت گیا تو دنیا اسے فاتح قرار دیگی۔

کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ فاتح قوم نے کتنی فاقہ کشی کی، دن میں کتنا‘ کتنی بار اور کیا کیا کھایا‘ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔ یوں گولڈا میئر نے اپنے دلائل سے کابینہ کو قائل کرلیا۔ پھر اسی معاہدے کے تحت خریدے گئے مہنگے ترین اسلحہ سے اسرائیل نے 1973ء میں عربوں سے جنگ جیت لی۔ اس جنگ کے کچھ عرصہ بعد گولڈا میئر سے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے پوچھا کہ اسلحہ کی خریداری کیلئے انکے ذہن میں دلائل کیسے آئے؟ گولڈا میئر کا جواب چونکا دینے والا تھا جو ہم مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے:

’’میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں یعنی مسلمانوں کے نبی سے لیا تھا۔ جب محمد کا وصال ہوا تو انکے گھر میں چراغ کیلئے تیل خریدنے کی رقم بھی نہیں تھی۔ انکی اہلیہ (حضرت عائشہؓ) نے انکی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا۔ اس وقت بھی محمد کے حجرے کی دیواروں پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کو جانتے ہوں گے، لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے مسلمانوں کی طرح، پختہ مکانوں کے بجائے خیموں میں زندگی گزارنی پڑے مسلمانوں کی طرح، تو بھی اسلحہ خریدینگے اور فاتح کا اعزاز پائینگے مسلمانوں کی طرح، ان مسلمانوں کی طرح جنہوں نے آدھی دنیا فتح کی لیکن آج یہ اپنی تاریخ کو بھلا چکے ہیں اسلئے بھی فتح کا ایک موقع موجود ہے‘‘۔

آج مسلمان ملکوں بالخصوص ان ممالک کی اقتصادی حالت قابلِ رشک اور مضبوط ہے جو اسرائیل کو بدترین دشمن سمجھتے ہیں۔سعودی عرب ان میں سرِفہرست ہے،مالی لحاظ سے بہت سے عرب ممالک ایک دوسرے سے بڑھ کے مضبوط ہیں۔یہاں مثال کے طور سعودیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حالیہ دنوںشاہ سلمان تین روزہ دورے پر روس گئے۔ مہمان وفد کے سامان کا وزن چار سو ٹن کے قریب تھا جس میں سینکڑوں کلوگرام کھانا، دو مرسڈیز گاڑیاں، سونے کی برقی سیڑھی اور شاہ کا پسندیدہ قالین بھی شامل تھا۔ 150 باورچی اور 1500 دیگرسٹاف تھا۔ مہمان نوازی کے لیے روس میں دو ہوٹل کرائے پر لیے گئے جن کا بل تیس لاکھ ڈالر بنا۔ بادشاہ نجی طیارے کے ذریعے ماسکو ایئر پورٹ پر اترے مگر پریشانی اس وقت ہوئی جب وہ جہاز سے اتر رہے تھے اور سونے کی بنی بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں اچانک بند ہو گئیں۔ پھر بادشاہ کو چل کر ہی یہ سیڑھیاں اترنا پڑیں۔ رواں سال ہی ان کے موسم گرما کی تعطیلات مراکش میں گزارنے پر 10 کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے ۔ مراکش کے تفریحی مقام طنجہ میں ان کا 74 ایکڑ پر مشتمل محل چھٹیاں منانے کیلئے تعمیر کیا گیا ہے۔ شاہ سلمان ایک ہزار سے زائد افراد کے وفد کے ساتھ مراکش گئے۔ گزشتہ سال جب اس جگہ آئے تھے تو ساتھ 100 مرسڈیز اور رینج روورز گاڑیاں بھی تھیں۔ گزشتہ روز ہی سعودی ولی عہد نے لیونارڈو ڈائونچی کی پینٹنگ 45 کروڑ ڈالر میں خریدی ہے۔دولت کے پیمانے چھلک رہے ہوں تو ایسے اخراجات میں قباحت نہیں۔

اسلام کے فاتح سیدنا عمر ؓ بیت المقدس کو فتح کرنے والے سب سے پہلے مسلم جرنیل ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں حضرت عمرو بن العاصؓ نے فلسطین کے بعض مقامات فتح کرلیے تھے۔ ان کا مقابلہ روم کے بڑے جرنیل اطربون کی فوج سے تھا۔ اطربون فلسطین کے شہر اجنادین میں ٹھہرا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے لشکر نے اجنادین کا محاصرہ کرلیا۔ اطرابوْن نے واپسی کیلئے دھمکی آمیز خط عمرو بن العاصؓ کو لکھا۔حضرت عمرو بن العاصؓ نے جواب دیا: میں اس ملک کا فاتح ہوں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اپنے دوستوں سے مشورہ کر لو۔ شاید عبرت ناک تباہی سے پہلے تمھیں کوئی نیک مشورہ دے۔

طبری کی ایک روایت میں ہے کہ اطربون نے جب حضرت عمرو بن العاصؓ کا خط پڑھا۔ تو اس جملے پر "میں اس ملک کا فاتح ہوں" ہنسا۔ ساتھیوں سے کہا کہ عمرو بن العاصؓ اس ملک کا فاتح نہیں بیت المقدس کے فاتح کا نام ’عمر‘ ہے۔ جس میں تین حرف ہیں۔ یہ تورات میں لکھا ہے۔

اس دوران اطرابون اور بیت المقدس کا پادری قلعہ بند ہوگیا۔اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے خود بیت المقدس کا رخ کیا کہ اس دوران پادری نے درخواست کر دی تھی کہ حضرت عمر ؓ خود تشریف لائیں، ہم صلح کرنے کیلئے تیار ہیں۔چنانچہ مقام جابیہ پر صلح نامہ تیار ہوا۔ جس کے بعد آپ عظیم فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں تشریف لے گئے۔

اسکے بعد بیت المقدس ایک بار پھر نصاریٰ کے قبضے میں چلا گیا اور 88 سال بعد صلاح الدین ایوبی کی یلغار مسلسل اور ایک ہفتہ کی خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور معافی کی درخواست کی۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوئے ۔

بیت المقدس پر فتح کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا تسلط رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پورے شہر بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا۔اس شہر میں اسرائیلی جس طرح چاہتے ہیں تعمیرات کر رہے ہیں۔ اس کو اپنا دارالحکومت بنانے کی کوشش کرتے رہے مگر امریکہ کی طرف سے حمائت نہیں مل رہی تھی اب ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ متنازعہ علاقے بیت المقدس میں منتقل کرنے کا حکم دیا جس پر پوری دنیا بالعموم سراپا احتجاج جبکہ مسلم امہ شدید اشتعال میں ہے۔ ٹرمپ سے فیصلہ واپس لینے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کیخلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حماس نے انتفاضہ کا اعلان کر دیا امریکی اور اسرائیلی مفادات پوری دنیا میں زد پر ہیں مگر ٹرمپ اور اسرائیل کا فیصلے کی واپسی آمادہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ جرم ضعیفی کی سزا ہے۔ 58 مسلم ممالک جن کے پاس دولت و وسائل کی کمی نہیں فلسطین کی آزادی میں بے بس ہیں۔ ابھی تو اس مقدس شہر میں سفارتخانے منتقل ہو رہے ہیں بعیدنہیں کل یہودی ہیکل سلیمانی کی تلاش کی آڑ میں مسجد اقصیٰ ہی شہید کر دیں جہاں سے نبی کریمؐ کا سفرِ معراج شروع ہوا اور تحویل کعبہ تک یہی قبلہ تھا۔

صہیونی مسجد اقصیٰ کی شہادت تک جاتے ہیں تو مسلم امہ آج کی طرح احتجاج مذمت اور مظاہرے کرکے بالآخر خاموش ہو جائیگی۔ یہ فلسطینیوں کی لڑائی ہے جو انہوں نے خود لڑنی ہے۔ پڑوسی ممالک ہمیشہ مدد پر آمادہ رہے ہیں جنگ بھی کی مگر اسرائیل کی پلاننگ کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسرائیل کو شکست دینے کیلئے اس سے بڑھ کر پلاننگ تربیت اور جدید اسلحہ کی ضرورت ہے جبکہ قربانی کا جذبہ ہر مسلمان میں کسی مذہب کے پیروکاروں سے زیادہ ہے۔ فلسطینی دوسرے ممالک کے ٹکڑوں پر پرآسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو نہ بدلا تو اسرائیل انہیں غزہ کے ساحل سے آسانی سے سمندر برد کر دے گا۔ سعودی عرب میں چالیس ملکی اتحاد کو مسلم امہ کا حقیقی نمائندہ اتحاد بنا دیا جائے۔ گو لڈا میئر دشمن ہو کر ہمارے نبی کی زندگی کے ایک پہلو کو اپنا کر کامیابی حاصل کرلیتی ہے۔ ہمارے سامنے تو مکمل اسوہ حسنہ موجود ہے اسکی پیروی کرکے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔اسرائیل کو مقبوضات میں تعمیرات اور تغیرات سے روکنا ممکن نہیں اور روکنے کی ضرورت بھی نہیں،اپنے مقبوضات واپس لیںجو ناممکن نہیں۔اسرائیل شکست دے سکتا ہے تو شکست کھا بھی سکتا ہے!