زندگی شروع ہونے سے پہلے اور خاموش ہونے کے بعد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 06, 2017 | 07:16 صبح

مرنے کے بعد انسان کو کہیں دفنایا جاتا ہے کہیں جلایا جاتا اور کہیں جسد خاکی کو ٹھکانے لگانے کیلئے دیگر طریقے استعما ل کئے جاتے ہیں ان میں سے کئی کے بارے میں جان کر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ کچھ ثقافتوں میں اپنے مردے کو کھا جانا انکے نزدیک اسے تکریم دینے کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس عمل کو درونی آدم خوری یا عینڈوکینیبالیسم کہا جاتا ہے۔ مردوں کے جسم پر اڑائی جانیوالی اس ضیافت کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہے کہ اس عمل سے فوت شدگان اور انکے پسماندگان کے مابین ایک پائیدار رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ پا

پووا نیو گنی کے ملیشین اور برازیل کے واری قبائل میں درونی آدم خوری کا رواج تھا۔ 

اپنے متوفین کا گوشت خود کیوں کھایا جائے جب اسے جنگلی جانوروں کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے؟ تبتی بدھ کچھ ایسے ہی خیالات کے حامل ہیں۔ تبتی اسے ’’آسمانی تدفین‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مردے کے جسم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے جانوروں بالخصوص پرندوں کو کھلا دیتے ہیں۔ بعض اوقات جسم کو یونہی کھلے آسمان تلے رکھ دیا جاتا ہے جسے گدھ چٹ کرجاتے ہیں۔ انکے نزدیک گدھ ایک متبرک پرندہ ہے جسے وہ "داکنی" یعنی فرشتہ کہتے ہیں۔

اپنے مردوں کو جلانے کی رسم اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں رائج ہے۔ آجکل ترقی یافتہ ممالک میں مخصوص بھٹیاں تیار کی جاتی ہیں جن میں مردے کو ڈال کر چند گھنٹوں میں ہی اسکی راکھ بنا کر مرتبان میں لواحقین کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ جنوبی کوریا میں 2000ء میں پاس ہونیوالے قانون کے مطابق ہر مرنے والے کے عزیزوں پر لازم ہے کہ وہ موت کے 60 سال بعد اپنے فوت شدگان کو قبر سے نکال لیں۔ اس قانون کے پاس کرنے کی بنیادی وجہ بڑھتی آبادی اور قبرستانوں میں جگہ کی عدم دستیابی ہے۔ عیسائیت، یہودیت اور اسلام سمیت بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن میں مردوں کی آخری آرام گاہ قبر قرار پاتی ہے۔

انسان کا موت کی طرف سفر دنیا میں آنے اور پہلا سانس لینے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ سو سال کی زندگی بھی کسی کو بخشی گئی ہے تواس کا کائونٹ ڈائون پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو گیا۔ اب تک اربوں کھربوں انسان آئے اور چلے گئے یہ سلسلہ ابد تک چلے گا۔ انسانی زندگی کا پہلا مرحلہ ولادت اور آخری موت ہے۔ ہمارے سامنے جتنے بھی طرم خان اور ہزار مار خان پھرتے ہیں سب زچگی کے مراحل سے گزرے اور موت کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ انسان خالقِ کائنات کی حسین تخلیق ہے مگر دوام صرف ذاتِ کبریا کو ہے جو اول و آخر ہے۔ اس سے بڑی حقیقت نہیں ہو سکتی۔ انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خسارے میں ہے سوائے انکے جو ایمان لائے۔ بجا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ مگر وجود مرد کے بغیر کائنات کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی۔ خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں۔ ایسی صورتوں نے کبھی تو اور کہیں تو جنم لیا

انسان غیر محسوس طریقے سے دوسرے انسانوں کیلئے زندگی بھر تو کجا پیدائش سے بھی قبل اور موت کے بعد بھی فائدہ اور نفع کا باعث رہا ہے۔ بچے کی پیدائش سے قبل والدین اپنی حیثیت کے مطابق اس کیلئے کپڑوں اور دیگر ضروریات کا اہتمام کرتے ہیں۔ پیدائش کے بعد اسکی تعلیم تربیت پر جو بھی اخراجات اٹھتے ہیں ان سے کسی کا چولہا جلتا ہے کوئی سائیکل خریدتا ہے، لینڈ کروزر فراری،جہاز محلات جائیداد نیز پنسل اور ماچس تک کی خریداری کسی کے کاروبار کی آبیاری ہے۔ انسان کی رخصتی سے بھی کئی لوگوں کے کاروبار وابستہ ہیں تدفین کا سامان گورکن کا معاوضہ قبر کی خریداری افسوس کیلئے آنے والوں کی تواضع مزید وغیرہ بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کفن چور معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہیئر انڈسٹری مردوں اور گورکنوں کی کوآرڈی نیشن سے پھل پھول رہی ہے۔ نازنین جن گھنے، لمبے اور رنگے بالوں پر نازاں رہتی ہیں گورکن موقع ملتے ہی کاٹ کر بالوں سے متعلق کام اور کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں جو انہیں امپورٹڈ قرار دیکر گاہکوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ جادو ٹونے کیلئے کئی مردوں کے اعضاء نکال لئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ انسان خالق کائنات کی حسین تخلیق ہے۔ بعض اوقات تخلیق کے مراحل میں پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے تخلیق میں کسی پیچیدگی اور نقص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم بات زچگی کے مراحل کی کر رہے ہیں۔ اس دوران اموات کے خدشات سر اٹھائے رکھتے ہیں کبھی بچہ نہیں بچتا تو کبھی زچہ موت کے منہ میں چلی جاتی اور کبھی دونوں کی جان چلی جاتی ہے۔ شہروں میں زچہ و بچہ سنٹر جگہ جگہ موجود ہیں، پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتال ہیں۔ دیہات میں ساری ذمہ داری دائی کی ہوتی ہے۔ شہروں کی نسبت دیہات میں زچگی میں پیچیدگیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ زچہ و بچہ سنٹر خواہ پرائیویٹ ہوں یا حکومتی یا حکومتی معاونت سے چلنے والے، انکی بہرحال افادیت ہے۔ یہ کاروبار ضرور ہے ساتھ انسانیت کی خدمت بھی ہے تاہم بعض پرائیویٹ ہسپتال مذبح خانے بن چکے ہیں۔ مریض وہاں جاتا ہے تو نارمل کیس کے اخراجات جمع کرائے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہہ کر فوری اپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر زچہ و بچہ کو کچھ ہوا تو ہم ذمہ دار نہیں ہونگے۔ نارمل کیس والی فیس ناقابل واپسی ٹھہرتی ہے۔ اگر کوئی زچہ آخری مراحل میں لائی جاتی ہے تو اس کا بھی اپریشن ہی حل تجویز کیا جاتا ہے اور پھر کسی ایکسپرٹ ڈاکٹر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اسسٹنٹ ہی مہارت سے ڈاکٹر والا کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خواتین کو کسی بھی صورت ڈاکٹر کے پاس لے جانے پر آمادہ نہیں ہوتے ہسپتال میں زچگی کو گناہ سمجھتے ہیں۔

دیہات میں اگر دائی سے کیس خراب ہو جائے تو قصبہ یا قریبی شہر تک لے جاتے ہیں اگر موت سے خاتون بچ گئی تو کئی دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہے وہ بھی اس مرحلے سے گزرے ہیں کئی کی شاید ہوشربا داستانیں بھی ہوں۔ اب وہ خلق خدا کی آسانی کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ ہمارے ہاں وسائل کی کمی نہیں، ان کو صرف مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ خوفِ خدا رکھنے اور انسانیت کی خدمت پر کمربستہ لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں حکومت انکے ساتھ پبلک پارٹنر شپ میں چھوٹے چھوٹے علاقائی یونٹ بنا کر ہر یونٹ میں ایک زچہ و بچہ سنٹر کھول سکتی ہے۔ یونٹ بلدیاتی کونسلر کے حلقے یا پولنگ بوتھ کی سطح پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ یونین کونسل کو مرکز بنا لیا جائے جہاں زیادہ پیچیدگی کی صورت میں زچہ کو لایا جائے۔ ڈاکٹرز کی کمی نہیں ہے۔ یونین کونسل کی سطح پر مرکز صحت بنا دئیے جائیں جہاں اپریشن کی سہولت کے ساتھ ڈاکٹر اور عملہ دیگر امراض کا علاج بھی کرے۔

ہمارے ہاں قبرستانوں کی بھی بری حالت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ قبرستان پھیلتے بھی چلے جا رہے ہیں۔ شہروں میں جگہ تنگ پڑ رہی ہے اور قبریں مہنگی بھی بہت ہیں۔ قبروں کی خرید و فروخت شرمناک کاروبار ہے۔ فلاحی ریاست میں جہاں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اصولی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے جو کبھی پوری نہیں ہوئی۔ شہری کے مرنے کے بعد اسکی تجہیز و تکفین و تدفین کی حکومت اگر ذمہ داری نہیں لیتی تو قبر کی جگہ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ ہمارے ہاں وہ جگہ بدترین حالت میں ہے جہاں ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ جس جگہ کو ہم اپنے پیاروں کیلئے آسودہ خاک کہتے ہیں اور یہی ہمارا مقدر ہے وہ کھنڈرات نظر آتے ہیں۔ قبرستان ویرانی کی منظر کشی کرتے ہیں۔ جن قبروں پر ہم فاتحہ پڑھنے اور محرم میں مٹی ڈالنے جاتے ہیں خدا بہتر جانتا ہے کہ اس میں کوئی جسدِ خاکی موجود بھی ہے یا جانوروں کی خوراک بن چکا ہے۔ قبرستانوں کو اچھے طریقے سے مینج کرنے کی ضرورت ہے یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہر فرد کو بھی اس بارے میں سوچنا ہے۔ ہمارے ایسے دانشور بھی گزرے ہیں جنہوں نے قبر کے تکلف کو بے سود جانا اور خود کو جلانے کی وصیت کی۔ ن م راشد‘ میراجی‘ عصمت چغتائی‘ ڈاکٹر دائود راہبر‘ اور افتی نسیم قابل ذکر ہیں۔ ہم گزر جانے والوں سے محبت و عقیدت کا اظہار کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے‘ اپنی حیثیت کے مطابق انکی روح کے ایصال ثواب کیلئے صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اگر مرنے والے کے نام پر قبرستان میں ترجیحاً اور کسی بھی جگہ عموماً ایک پودا لگا دیں تو یہ عمل جہان سے جانیوالے کے درجات کی بلندی اور قبرستان کے سرسبز ہونے کا باعث بنے گا۔